کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 187
ہو۔ آپ نے یہ قدم اس لیے اٹھایا تھا تاکہ ان سے مشورہ لیا جاسکے اور حکومتی سطح پر مشکل حالات میں ان کی طرف رجوع کیا جاسکے۔ ساتھ ہی ساتھ دوسرے شہروں میں ان کے سفر کرنے اور اقامت گزیں ہونے کے باعث ممکنہ فتنوں اور مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا ہونے سے بچا جاسکے۔ [1] یہ آپ کی سیاسی حکمت وبصیرت اور لوگوں کی طبیعتوں اور نفسیات سے بخوبی واقفیت کا نتیجہ تھا کہ آپ نے کبار صحابہ کو مدینہ میں روک لیا اور کہا: مجھے اس امت کے بارے میں سب سے زیادہ خوف آپ لوگوں کی دوسرے شہروں میں منتقلی سے ہے۔ [2] آپ کو یقین تھا کہ اگر اس سلسلہ میں کوتاہی ہوئی تو مفتوحہ علاقوں میں فتنہ پھیل جائے گا اور لوگ ممتاز شخصیات کے اردگرد حلقہ بنا لیں گے، پھر ان کے بارے میں شکوک وشبہات ابھرنے لگیں گے، جھنڈے اور قیادتیں مختلف ہوجائیں گی، پھر یہ چیز ہنگامہ آرائی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب بن جائے گی۔ [3] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ ایک ہی اسلامی ملک میں متعدد سیاسی اور دینی طاقتوں کے متعدد مراکز کے وجود سے ڈر رہے تھے کہ کہیں کسی شخص کے بارے میں یہ کہہ کر کہ یہ فلاں بزرگ صحابی ہیں، وہ فلاں جلیل القدر صحابی ہیں، اس کی رائے کی اہمیت واجلال کا قلادہ گلے میں نہ ڈال لیا جائے اور پھر اس کی رائے حکومت سے صادر ہونے والی قرار داد کے درجہ تک پہنچ جائے۔ آپ نے متعدد طاقتوں کے متعدد مراکز، اور حکومتی گرفت کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچانے کے پیش نظر کبار صحابہ کو مدینہ کے اندر باقی رکھنے میں بھلائی سمجھی، تاکہ قرار دادوں کے نفاذ میں وہ لوگ بھی آپ کے شریک مشیر بن سکیں اور انفرادی اجتہاد کی ہنگامہ آرائی سے محفوظ رہیں۔ اگر یہ شرعی دلیل سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے سامنے نہ ہوتی تو آپ کی جانب سے صادر ہونے والا حکم نامہ قابل احترام اور قابل عمل نہ ہوتا۔ عمر رضی اللہ عنہ کو شرعی سند اس لیے ملی تھی کہ رعایا پر کوئی تصرف کرنا اس کی مصلحت سے مربوط ہے۔ [4] &: دوسری استثنائی حالت اس وقت پیش آئی جب کہ عمر نے نجران کے نصاریٰ اور خیبر کے یہودیوں کو عرب ممالک سے عراق اور شام کی طرف جلا وطنی کا حکم دے دیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ خیبر کے یہودی اور نجران کے نصاریٰ نے اپنے ان عہد و پیمان اور شرائط کا التزام نہیں کیا تھا جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی تھیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں اس کی تجدید کی تھی۔ خیبر کے یہودی اور نجران کے نصاریٰ کی مجلسیں مکر وفریب کا ٹھکانا تھیں۔ اس لیے ان شیطانی قلعوں کو ڈھانا اور ان کی قوتوں کو توڑنا بہت ضروری تھا۔ البتہ دوسرے مقامات کے یہود و نصاریٰ مدنی معاشرہ میں عام رعایا کی طرح زندگی گزار رہے تھے اور اپنے سارے حقوق سے فائدہ اٹھا
[1] نظام الحکم فی عہد الخلفاء الراشدین، ص: ۱۱۷ [2] الاموال، أبوعبید، ص:۵۷۔ أحکام أہل الذمۃ، ابن القیم: ۱/ ۳۸ [3] نصب الرایۃ، الزیلعی: ۷/ ۴۵۳