کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 180
غسانی حکمران نے بھی اسلام قبول کر لیا، نیز اس کے ساتھ اس کے دوسرے ساتھی بھی اسلام لے آئے، پھر اس نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مدینہ آنے کی اجازت مانگی، عمر رضی اللہ عنہ کو اس کے قبول اسلام اور مدینہ آنے کی خبر سن کر بہت خوشی ہوئی، چنانچہ وہ مدینہ آیا، اور لمبی مدت تک وہاں قیام کیا۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس کی دیکھ بھال کرتے رہے اور اسے مبارک باد دیتے رہے۔ ایک مرتبہ وہ (غسانی) حج کے لیے گیا، اتفاق سے طوافِ کعبہ کے دوران بنو فزارہ کے ایک آدمی کے پاؤں سے اس کا ازار دب گیا اور پھر کھل کر نیچے گر گیا۔ غسانی حکمران اس پر غصے ہوگیا … چونکہ وہ ابھی نو مسلم تھا … اور فزاری کو زور دار تھپڑ مارا، جس سے اس کی ناک ٹوٹ گئی۔ فزاری بھاگتے ہوئے اپنی مصیبت کی شکایت لے کر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، آپ نے جبلہ کو بلوایا اور اس سے پوچھا۔ اس نے جو کچھ ہوا تھا اس کا اقرار کیا۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے جبلہ! تم نے اپنے اس بھائی پر کیوں ظلم کیا اور اس کی ناک کیوں توڑی؟ غسانی نے جواب دیا کہ میں نے تو اس گنوار کے ساتھ بڑی نرمی کی ہے، اگر خانہ کعبہ کی حرمت وتقدس کا لحاظ نہ ہوتا تو میں اس کی آنکھیں نکال دیتا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا: تم نے اقرار کرلیا ہے، اب یا تو تم اس آدمی کو راضی کر لو ورنہ میں اس کو تم سے بدلہ دلواؤں گا۔ جبلہ بن ایہم یہ سب دیکھ کر مزید دہشت میں پڑ گیا اور کہنے لگا: یہ کیسے ہوسکتا ہے، وہ ایک عام آدمی اور میں ایک بادشاہ؟ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسلام نے تم دونوں کو برابر کر دیا ہے۔ غسانی نے کہا: میں نے سوچا تھا کہ جاہلیت کے مقابلہ میں اسلام میں زیادہ معزز ہو کر رہوں گا۔ آپ نے فرمایا: یہ سب چھوڑو، اگر تم اس آدمی کو راضی نہیں کرلیتے تو اس کو تم سے بدلہ دلواؤں گا۔ جبلہ نے کہا: تب تو میں نصرانی ہی ہوجاتا ہوں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم نصرانی ہوجاتے ہو تو میں تم کو قتل کروں گا، کیونکہ تم اسلام لاچکے ہو، لہٰذا اگر مرتد ہوئے تو تمہیں قتل ہی کروں گا۔ [1] اب جبلہ کو یقین ہوچکا تھا کہ جھگڑنے سے کوئی فائدہ نہیں اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ حیلہ بہانہ کرنا کچھ بھی سود مند نہیں ہے، اس لیے اس نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مہلت مانگی تاکہ اس معاملہ میں کچھ غور کرلے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے جانے اور سوچنے کا موقع دے دیا۔ جبلہ نے غور وفکر کے بعد ایک فیصلہ کیا اور وہ فیصلہ بھی ایسا جس میں وہ غلطی ہی پر تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ رات کی تاریکی میں اپنی قوم کے ساتھ مکہ چھوڑ کر قسطنطنیہ بھاگ
[1] مناقب أمیر المومنین، ابن الجوزی، ص: ۲۳۵ [2] الخلافۃ الراشدۃ والدولۃ الأمویۃ، یحیٰی الیحیٰی، ص: ۳۴۵ [3] فن الحکم فی الإسلام، د/ مصطفٰی أبوزید، ص: ۴۷۵، ۴۷۶