کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 179
بدری صحابہ کی مخالفت کی جو تم سے بہتر تھے، میں نے تمہیں اس لیے منتخب کیا تھا کہ تم میری طرف سے دفاع کرو گے اور میرے عہد کو نافذ کرو گے، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تم بھی اسی (خامی) میں لت پت ہو جس میں میں لت پت ہوں، اگر میں تم کو عہدہ سے برطرف کرتا ہوں تو یہ بھی اچھی بات نہیں ہے، تم نے عبدالرحمن کو اپنے گھر میں مارا جب کہ جانتے ہو کہ یہ میرے مزاج وعہد کے خلاف ہے، عبدالرحمن تمہاری رعایا کا ایک فرد ہے، جو کچھ تم دوسرے مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہو وہی اس کے ساتھ کرو۔ لیکن تم نے کہا کہ یہ امیر المومنین کے صاحبزادے ہیں۔ تمہیں معلوم ہے کہ اگر میرے نزدیک کسی پر اللہ کا حق واجب ہے تو اس میں اس کے لیے کوئی مروت ورعایت نہیں، لہٰذا جب تم کو یہ خط ملے تو اسے (عبدالرحمن کو) پالان پر رکھے ہوئے کپڑے کا چوغا پہنا کر روانہ کرو تاکہ اس کی سزا کو لوگ جان سکیں۔‘‘ [1] پھر انہیں مدینہ لایا گیا اور کھلے عام ان پر حد جاری کی گئی۔ ابن سعد نے اس واقعہ کو روایت کیا ہے اور ابن زبیر نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ نیز عبدالرزاق نے بسند صحیح ابن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالہ سے پورا واقعہ تفصیل سے لکھا ہے۔ [2] اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ شریعت میں عدل ومساوات کا کتنا اعلیٰ مقام ہے، امیر المومنین کا لڑکا مجرم ہے، لیکن وقت کا گورنر اس کی سزا معاف نہیں کرتا اور جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خبر پہنچتی ہے کہ ان کے لڑکے کے ساتھ رعایت کی گئی ہے تو اسے سخت سزا دی اور اس کے ذمہ دار کو جو فاتح مصر تھے سخت ترین ڈانٹ پلائی اور لڑکا جس سزا کا مستحق تھا اسے نافذ کرایا۔ بلاشبہ یہ سب کارروائیاں حدودِ الٰہیہ کی حفاظت اور اپنے لڑکے کی اصلاح ودرستگی کی خواہش پر مبنی تھیں، جب اپنی قریب ترین اولاد کے لیے آپ کا یہ رویہ تھا تو پھر دوسروں کے بارے میں آپ کیا سوچ سکتے ہیں۔[3] (۶)… عدل ومساوات کی تاریخ میں ایک اہم ترین مثال جبلہ بن ایہم کے ساتھ عمر بن خطاب کا وہ واقعہ بھی ہے جسے مؤرخین حضرات مساوات کی تنفیذ میں عدم مروت کے باب میں ذکر کرتے ہیں۔ واقعہ کی تفصیل یہ ہے: جبلہ، ہرقل کی جانب سے بنوغسان کا آخری حکمران تھا اور غسانی لوگ رومی سلطنت کی ماتحتی میں شام میں رہتے تھے اور شاہ روم غسانیوں کو ہمیشہ جزیرہ عرب کے باشندوں خاص طور پر مسلمانوں سے جنگ کرنے پر ابھارتا رہتا تھا۔ لیکن جب اسلامی فتوحات کی سرحدیں وسیع ہوگئیں اور رومیوں نے مسلمانوں کے ہاتھوں پے درپے ہزیمتیں اٹھائیں تو شام میں بسنے والے عرب قبیلوں نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرنا شروع کردیا،
[1] مناقب أمیر المومنین، ابن الجوزی، ص: ۱۴۷ [2] الخلفاء الراشدون، ص: ۲۴۳ [3] نظام الحکم فی الشریعۃ الإسلامیۃ والتاریخ الإسلامی: ۱/ ۸۸