کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 173
سطح پر عادلانہ نظام قائم کرنا کوئی نفلی کام نہیں ہے جس کو حاکم وقت یا امیر وقت کے مزاج اور خواہش پر چھوڑ دیا جائے ،بلکہ لوگوں میں اس کا قیام اسلامی نقطہ نظر سے اسلام کے مقدس اور اہم ترین فرائض میں سے ہے اور امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ عدل وانصاف واجب ہے۔[1] مفسر قرآن فخر الدین الرازی کا قول ہے کہ امت کا اس بات پر اجماع ہے۔ [2] حاکم وقت پر عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کرنا واجب ہے، اس کی تائید قرآنی آیات اور سنت نبویہ سے ہوتی ہے کیونکہ اسلامی ملک کا تقاضا ہے کہ ایسا اسلامی معاشرہ وجود میں آئے جس میں عدل ومساوات کی حکمرانی ہو اور ظلم تمام تر اشکال میں ناپید ہو اور اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ہر انسان جو اپنے حق کا طالب ہو اس کے لیے میدان کشادہ ہو، راستہ ہموار ہوں تاکہ آسان اور مختصر راستوں کے ذریعہ سے اپنا حق لے سکے۔ اسے کسی مشقت یا رشوت ادا کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ نیز اسلامی حکومت کے اہم مقاصد میں یہ بھی ہے کہ وہ تمام اسباب ووسائل جو حصول حق کی راہ میں رکاوٹ بنیں انہیں ختم کر دے۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے ملک میں یہی کیا۔ آپ نے دروازہ کے دونوں پٹ کھول دیے تاکہ رعایا اپنے حقوق پاسکے، آپ نے بنفس نفیس رعایا کی خبرگیری کی، اسے ہر متوقع ظلم سے بچایا اور حکام ورعایا کے درمیان عدل کی وہ خوب صورت مثال قائم کی جو تاریخ کا زرّیں باب ہے۔ آپ فریقین کے درمیان عدل قائم کرتے اور فیصلہ حق کے ساتھ کرتے تھے۔ آپ یہ نہیں سوچتے تھے کہ جن کے خلاف فیصلہ ہوا ہے وہ دشمن ہیں یا دوست ، مال دارہیں یا فقراء۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ للّٰهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللّٰهَ إِنَّ اللّٰهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (المائدۃ:۸) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر خوب قائم رہنے والے، انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں ہرگز اس بات کا مجرم نہ بنا دے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ بے شک اللہ اس سے پوری طرح با خبر ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ اپنے عدل وانصاف کا نمونہ تھے جس نے دلوں کو فتح کرلیا اور عقلیں حیرت زدہ رہ گئیں، آپ کی نگاہ میں عدل وانصاف اسلام کی ایک عملی دعوت تھی جس سے لوگوں کے دلوں کو ایمان کے لیے وسیع کیا
[1] صحیح مسلم، کتاب السلام، حدیث نمبر: ۲۲۱۹ [2] القیود الواردۃ علی سلطۃ الدولۃ فی الإسلام، ص: ۱۶۷۔ ۱۶۸