کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 168
آپ کے اقوال زرّیں میں سے ہے: ’’جس کام کو بغیر مشورہ کے عمل میں لایا گیا اس میں بھلائی نہیں ہے۔‘‘ [1] اور آپ کا قول ہے: ’’تنہا رائے کچے دھاگے کی طرح ہے اور دو رائے دو پختہ دھاگوں کے مثل ہیں، جب کہ تین آدمیوں کا مشورہ بٹی ہوئی رسی کے مثل ہے جو ٹوٹتی نہیں ہے۔‘‘ [2] نیز آپ نے فرمایا ہے: ’’اپنے معاملات میں اس آدمی سے مشورہ لو جو اللہ سے ڈرتا ہو۔‘‘ [3] اور فرمایا: ’’انسان تین طرح کے ہیں: وہ آدمی جس کے پاس معاملہ آتا ہے تو وہ اسے صرف اپنی رائے سے حل کرتا ہے۔ وہ آدمی جو اپنے مشکل معاملات میں دوسروں سے مشورہ لیتا ہے اور لوگ اسے جو مشورہ دیتے ہیں اسے کرتا ہے۔ وہ آدمی جو نہ کسی کی بات مانتا ہے اور نہ کسی چیز کی طرف توجہ دیتا ہے۔‘‘ [4] ایک مقام پر فرمایا: ’’مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کا معاملہ ان کے اور اہل حل وعقد کے درمیان شورائیت سے طے پائے۔ جو شخص اس فریضہ کو ادا کرے لوگ اس کے تابع ہوں اور جس بات پر سب متفق ہوجائیں اور باہم راضی ہوجائیں وہ سب پر لازم ہے اور سب اس کے تابع ہوں گے اور جو شخص اس شورائیت کو بروئے کار لائے وہ اہل حل وعقد کے مشوروں کے تابع ہوگا۔ فوجی کارروائی وغیرہ سے متعلق اس کو ان کی رائے پر عمل کرنا ہوگا۔‘‘ [5] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ اپنے فوجی کمانڈروں کو مشورہ لینے کی برابر تاکید کرتے تھے۔ چنانچہ جب آپ نے ابوعبید ثقفی کو عراق کے محاذ پر اہل فارس سے جنگ کرنے کے لیے بھیجا تو ان کو نصیحت کی کہ ’’اصحاب رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور خاص طور پر بدری صحابہ کی باتوں کو سننا اور اطاعت کرنا۔‘‘ [6]عراق کے محاذ پر ڈٹے ہوئے اپنے فوجی کمانڈروں
[1] الشیخان أبوبکر الصدیق وعمر بن الخطاب، بروایت بلاذری، ص: ۲۵۶ [2] النظام السیاسی فی الإسلام، ابو فارس، ص: ۹