کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 160
منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا پہلا خطبہ: اس سلسلہ میں روایات مختلف ہیں کہ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے کون سا خطبہ دیا؟ بعض سیرت نگاروں کا کہنا ہے کہ آپ منبر پر تشریف لائے اور کہا: ’’اے اللہ! میں سخت ہوں مجھے نرم کردے، میں کمزور ہوں مجھے قوت دے دے، میں بخیل ہوں مجھے سخی بنا دے۔‘‘ [1] اور بعض روایتوں کے مطابق آپ کا پہلا خطبہ یہ تھا: ’’اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے تم کو آزمایا ہے اور میرے دونوں رفقاء کے بعد تمہارے ذریعہ سے مجھ کو آزمایا ہے۔ اللہ کی قسم تمہارا جو معاملہ میرے سامنے پیش ہوگا میں خود اس کو حل کروں گا اور جو معاملات مجھ سے دور ہوں گے ان کے لیے قوی وامین حضرات کو مقرر کروں گا۔ اللہ کی قسم! اگر لوگوں نے مجھ سے اچھا برتاؤ کیا تو میں ان سے اچھا برتاؤ کروں گا اور اگر غلط طریقہ سے پیش آئے تو انہیں سخت سزا دوں گا۔‘‘ جو لوگ اس خطبہ میں حاضر تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے اسی منشور پر عمل کیا، یہاں تک کہ اس دنیا سے چل بسے۔ [2] اور یہ بھی مروی ہے کہ جب آپ نے خلافت سنبھالی تو منبر پر تشریف لائے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ جس زینہ پر بیٹھتے تھے اس پر بیٹھنا چاہا، پھر کہا: اللہ کو پسند نہیں ہے کہ میں خود کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مجلس کا اہل سمجھوں اور پھر نیچے زینہ پر اتر گئے، اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور کہا: ’’تم قرآن پڑھو اس سے پہچانے جاؤ گے، اس پر عمل کرو قرآن والے ہوجاؤ گے، اپنے آپ کا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور بڑی پیشی (قیامت) کے لیے تیاری کرو، جس دن کہ تم اللہ کے سامنے پیش کیے جاؤ گے اور کوئی چیز پوشیدہ نہ رہے گی۔ کسی حق دار کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ کی معصیت میں اس کی اطاعت کی جائے۔ سن لو میں نے اللہ کے مال کے بارے میں خود کو یتیموں کے ولی (نگران) کے قائم مقام کرلیا ہے۔ اگر مجھے مال ملا تو میں اسے اپنانے سے بچوں گا اور اگر فقیری لاحق ہوئی تو معروف طریقے سے کھاؤں گا۔‘‘ [3] مذکورہ تمام روایات کے درمیان اس طرح جمع وتطبیق ممکن ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے مجمع عام کے سامنے خطبہ دیا تھا،
[1] شرح النووی علی صحیح مسلم: ۱۲/ ۲۰۶ [2] منہاج السنۃ: ۱/ ۱۴۲ [3] شرح العقیدۃ الطحاویۃ، ص: ۵۳۹ [4] الطبقات، ابن سعد: ۳/ ۱۹۹ [5] کتاب الإمامۃ والرد علی الرافضۃ، ص: ۲۷۶