کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 156
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ مجھے اس کی تعبیر بتا دیجیے۔ آپ نے فرمایا: تم تعبیر بتاؤ۔ انہوں نے کہا: بادل سے مراد اسلام ہے اور اس سے برسنے والے پنیر اور شہد سے مراد قرآن اور اس کی مٹھاس کی بارش ہے۔ تو کچھ لوگ زیادہ قرآن پڑھنے والے ہیں اور کچھ کم ہیں اور جو چیز زمین سے آسمان کی طرف بلند ہو رہی تھی اس سے وہ حق مراد ہے جس پر آپ ہیں۔ آپ نے اس کو پکڑا اور اس نے آپ کو بلند کیا، پھر اس کو دوسرا آدمی پکڑتا ہے اور وہ بھی اس کے سہارے بلند ہوتا ہے۔ پھر ایک آدمی اس کو پکڑتا ہے اور وہ چیز کٹ جاتی ہے، پھر جڑ جاتی ہے اور وہ اس کے سہارے اوپر چڑھ جاتا ہے۔ اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان، مجھے بتایے کیا میں نے صحیح تعبیر کی یا کوئی غلطی کی ہے؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَصَبْتَ بَعْضًا وَآَٔخْطَأْتُ بَعْضًا۔)) ’’کچھ تم نے صحیح کہا اور بعض میں غلطی کی۔‘‘ میں نے کہا: اللہ کی قسم، اے اللہ کے رسول! میری غلطی مجھے ضرور بتایے۔ آپ نے فرمایا: ’’ لَا تُقْسِمُ‘‘ قسم نہ کھاؤ۔ [1] یہ حدیث بھی عمر رضی اللہ عنہ کے استحقاق خلافت کی طرف اشارہ کرتی ہے، بایں طور کہ حدیث میں ہے: ’’پھر اسے دوسرے آدمی نے پکڑا اور وہ اس سے بلند ہوا‘‘ وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ اور دوبارہ یہ کہنا کہ ’’پھر اسے ایک آدمی نے پکڑا اور وہ کٹ گئی‘‘ اس سے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف اشارہ ہے۔ [2] * سیّدناانس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنو مصطلق (کے لوگوں)نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ میں آپ سے دریافت کروں کہ آپ کے بعد ہم زکوٰۃ کسے دیں گے؟ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا: ابوبکر کو۔ میں ان کے پاس واپس آیا اور انہیں بتایا، تو انہوں نے کہا: جاؤ، دوبارہ آپ سے دریافت کرو اور کہو کہ اگر ابوبکر کے ساتھ کوئی حادثہ ہوجائے تو کسے دیں؟ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: عمر کو۔ پھر میں ان کے پاس آیا اور ان کو بتایا۔‘‘ [3] اس حدیث میں عمر رضی اللہ عنہ کے استحقاق خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے اور یہ کہ آپ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد مسلمانوں کے معاملات کے ذمہ دار ہوں گے۔ [4] * عمر رضی اللہ عنہ خلافت کے زیادہ حق دار تھے، اس بات کی ایک اہم دلیل صحابہ کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ وہ
[1] فتح الباری، العسقلانی: ۷/ ۴۶ [2] عقیدۃ أہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ الکرام: ۲/ ۶۳۷ [3] سنن أبی داود: ۲/ ۵۱۲۔ سنن ترمذی: ۴/ ۵۴۰ [4] عون المعبود شرح سنن أبی داود: ۱۳/ ۳۸۷