کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 155
ایسی کامیاب خلافت کی کوئی آپ کا مخالف نہ ہوا۔ پھر خلافت عثمانی میں اسلامی حکومت کا دائرہ مزید وسیع ہوگیا، چہ میگوئیاں زیادہ ہوگئیں، آراء وخیالات میں اختلاف ہونے لگا اور لوگوں کی طرف سے آپ کے حق میں اتفاق رائے کا اس طرح مظاہرہ نہ ہو اجس طرح عمر رضی اللہ عنہ کے لیے ہوا تھا۔ یہیں سے فتنوں کا ظہور ہوا اور معاملہ آپ کی شہادت پر جا کر ختم ہوا۔ پھر علی رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے لیکن اختلافات میں اضافہ اور فتنوں میں انتشار ہی ہوتا رہا۔[1] گویا حدیث میں خلافت فاروقی کی صحت اور حقیت پر واضح اشارہ موجود ہے۔[2] * ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا: (( مَنْ رَأَیْ مِنْکُمْ رُؤْیًا؟)) ’’تم میں سے کس نے خواب دیکھا ہے؟‘‘ ایک آدمی نے کہا: میں نے دیکھا ہے کہ آسمان سے ایک ترازو نازل ہوا، پھر آپ اور ابوبکر اس میں وزن کیے گئے لیکن آپ ابوبکر کے مقابلہ میں بھاری ہوگئے۔ پھر عمر اور ابوبکر وزن کیے گئے تو ابوبکر عمر کے مقابلہ میں بھاری ہوگئے۔ پھر عمر اور عثمان وزن کیے گئے تو عمر بھاری نکلے، پھر ترازو اٹھا لیا گیا۔ اور ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے۔[3] اس حدیث میں فضیلت میں فرق مراتب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ان میں سب سے پہلے ابوبکر ہیں، پھر عمر، پھر عثمان رضی اللہ عنہم ہیں۔ اسی طرح یہ حدیث سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے استحقاق خلافت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے اور یہ کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد وہی خلافت کے ذمہ دار ہوں گے اور حدیث میں ان کا یہ کہنا: ’’ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے۔‘‘ یہ اس وجہ سے ہوا کہ آپ نے ترازو اٹھا لیے جانے کی تاویل خلافت عمر کے بعد امور خلافت کے زوال اور فتنوں کے ظہور سے کی۔ [4] * ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ حدیث بیان کرتے تھے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میں نے آج رات خواب میں بادل دیکھا جس سے پنیر اور شہد کی بارش ہو رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ لوگ اسے اپنی ہتھیلیوں میں بھر رہے ہیں۔ کسی نے زیادہ لیا، کسی نے کم۔ پھر ایک ایسی چیز نمودار ہوئی جو زمین سے آسمان کی طرف چڑھ رہی تھی۔ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اسے پکڑ لیا اور بلند ہوگئے پھر دوسرے آدمی نے اس کو پکڑا وہ بھی بلند ہوگیا، پھر تیسرے آدمی نے اس کو پکڑا تو وہ چیز ٹوٹ گئی، لیکن پھر جڑگئی۔
[1] فیض القدیر، المناوی: ۲/ ۵۶ [2] صحیح مسلم: ۲۳۹۱۔