کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 138
روایتوں میں ہے کہ آپ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ بحرین کا گورنر کسے بنائیں؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ اس شخص کو بھیج دیں جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کا امیر بنا چکے ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان لوگوں کے قبول اسلام اور اطاعت و فرماں برداری کی خبر سنا چکے ہیں، [1]وہ اسے پہچانتے ہیں اور وہ انہیں پہچانتا ہے، ان کی سرزمین سے اچھی واقفیت رکھتا ہے آپ کی مراد تھی کہ علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ امیر بن جائیں۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا انکار کیا اور کہا: میں ابان بن سعید بن عاص کو اس کے لیے مجبور کرتا ہوں کیونکہ وہ ان کے حلیف ہیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو مجبور کرنے سے عمر رضی اللہ عنہ کو منع کیا اور کہا: میں ایسے آدمی کو مجبور نہیں کرنا چاہتا جو کہتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کی ماتحتی میں کام نہیں کروں گا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے علاء بن حضرمی کو بحرین بھیجنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ [2] مسلمان مقتولین کی دیّت کی عدم قبولیت کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ کی رائے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے اقرع بن حابس اور عیینہ بن حصن کو مخصوص زمین دینے پر آپ کا اعتراض : ۱: مرتدین کے خلاف جنگ میں مسلمان مقتولین کی دیّت کی عدم قبولیت پر آپ کی رائے: اسد اور غطفان کی طرف سے بزاخہ کی قیادت میں ایک وفد ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور صلح کا مطالبہ کرنے لگا، آپ نے ان کو تباہ کن جنگ اور رسوائی پر مبنی صلح کی ادائیگی کے درمیان اختیار دیا۔ انہوں نے کہا: تباہ کن جنگ تو دیکھ لی لیکن رسوائی پر مبنی صلح کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تم سے تمہارے مویشیوں اور کھیتیوں کو چھین لیا جائے گا اور تمہارا جو مال ہم کو ملے گا اسے ہم مال غنیمت سمجھیں گے اور تم ہمارا جو مال پاؤ گے اسے واپس کردو گے، ہمارے مقتولین کی تم دیّت دو گے اور تمہارے مقتولین جہنم رسید ہوں گے اور تم ان لوگوں کا پیچھا چھوڑ دو گے جو اونٹوں کی دموں کے پیچھے چلتے ہیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ، خلیفہ رسول اور مہاجرین کوئی ایسی چیز دیکھ لیں کہ تم کو معذور سمجھنے لگیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس وفد کے سامنے جو بات کہی تھی اسے جب عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا تو وہ کھڑے ہوگئے اور کہا: آپ نے جو بات کہی ٹھیک ہے لیکن ہم بھی آپ کو مشورہ دیتے ہیں کہ آپ نے تباہ کن جنگ اور رسوا کن صلح کی جو بات کہی وہ بہت اچھی بات کہی اور یہ کہ جو تمہارا مال ہمیں ملے گا اسے ہم مالِ غنیمت سمجھیں گے اور ہمارا جو مال تم کو ملے گا سو اس کے بارے میں بھی آپ نے بہت اچھا کہا لیکن آپ نے ہمارے مقتولین کی دیّت لینے اور ان کے مقتولین کے جہنم رسید ہونے کی جو بات کہی ہے تو اس سلسلہ میں میری رائے یہ ہے کہ
[1] شہید المحراب، ص: ۶۹ نقلاً عن الاستیعاب: ۳/ ۳۳۸۔ [2] سیر أعلام النبلاء: ۴/ ۸۹۔ أصحاب الرسول: ۱/ ۱۳۷