کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 130
اور یہ بات اس فرمان الٰہی کے پیش نظر کہی: مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ (الانعام:۳۸) ’’ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی۔‘‘ اور یہ ارشادِ الٰہی: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المائدۃ:۳) ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے۔‘‘ آپ کو معلوم تھا کہ اللہ نے اپنا دین مکمل کر دیا ہے اور اس طرح امت کی گمراہی کا خطرہ آپ کو نہ رہا، دراصل عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض الموت میں آرام دینا چاہتے تھے۔ اس طرح عمر، ابن عباس رضی اللہ عنہم اور آپ کی تائید کرنے والوں سے زیادہ فقاہت اور دینی بصیرت کے مالک نکلے۔ علامہ خطابی فرماتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ کی بات کو اس بات پر محمول کرنا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں غلط گمان کیا ہوگا یا کوئی ایسی نامناسب بات سوچی ہوگی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے مناسب نہیں، بہرحال یہ جائز نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ قرب وفات کے وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف میں شدت ہوگئی اور آپ کو سخت بے چینی لاحق ہوئی تو آپ ڈرے کہ کہیں آپ ایسی بات نہ کہہ دیں جیسے مریض جان کنی کے عالم میں غیر ارادی طور پر کہہ دیتا ہے اور پھر منافقوں کو دین میں اعتراض کرنے کا موقع مل جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز پر پختگی سے حکم نہیں لگاتے تھے آپ کے صحابہ اس سلسلہ میں آپ سے استفسار کرتے تھے۔ جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر اختلاف اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان صلح نامہ سے متعلق صحابہ نے آپ سے استفسار کیا، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حتمی طور پر کسی چیز کا حکم دیتے تھے تو اس سلسلہ میں کوئی آپ سے استفسار نہ کرتا تھا۔ [1] قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحیح مسلم وغیرہ میں ((أَہَجَرَ۔))یعنی ہمزۂ استفہام کے ساتھ ((ا أَہَجَرَ۔))وارد ہے۔ اور ’’ ہَجَرَ، یَہْجُرُ‘‘ والی روایت کے مقابلے میں وہی زیادہ صحیح ہے۔ اس لیے کہ ’’ ہَجَرُ‘‘ کا معنی ’’ہذی‘‘ یعنی ہذیان بکنا (لغو اور بے مقصد بات بولنا) اور اس معنی میں ’’ہجر‘‘ کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صحیح نہیں ہے۔ گویا یہ استفہام انکاری تھا اُن لوگوں کے ردّ میں جنہوں نے کہا تھا: ’’مت لکھو‘‘ لہٰذا اس کا مطلب ہوا کہ آپ کے قول کو نہ چھوڑو اور اسے اس آدمی کی بات کی طرح نہ بنا دو جو اپنی بات میں ہذیان بکتا ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات چھوڑنے کے لائق نہیں کیونکہ آپ ہذیان سے پاک ہیں۔
[1] صحیح البخاری، العلم، حدیث نمبر: ۱۱۴