کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 121
(( لَا، وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ ، حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْکَ مِنْ نَّفْسِکَ۔)) ’’نہیں (تم مومن نہیں ہوسکتے)، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہاں تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب ہوجاؤں۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اب ایسے ہی ہے۔ اللہ کی قسم آپ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اَلْآنَ یَاعُمَرُ۔)) ’’اب (تمہارا ایمان مکمل ہو ا) اے عمر! ‘‘[1] آپ کے علم کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( بَیْنَمَا أَنَا نَائِمٌ شَرِبْتُ۔ یَعْنِیْ اللَّبَنَ ۔ حَتَّی أَنْظُرَ إِلَی الرَّی یَجْرِیْ فِیْ ظُْفْرِیْ …أَوْ فِیْ أَظْفَارِیْ… ثُمَّ نَاوَلْتُ عُمَرَ۔)) ’’میں سورہا تھا تو میں نے (خواب میں) دودھ نوش کیا، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ اس کی تراوٹ میرے ناخن … یا ناخنوں … میں جاری ہے، پھر میں نے وہ ( دودھ)عمر کو دیا۔‘‘ صحابہ نے پوچھا: آپ اس کی کیا تعبیر کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’العلم‘‘ یعنی (دودھ سے) علم مراد ہے۔ [2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کی تعبیر علم سے اس لیے کی کہ نفع رسانی کی کثرت اور تعمیر ونمو کا سبب ہونے میں دونوں مشترک ہیں۔ پس دودھ جسمانی غذا کے لیے اور علم روحانی غذا کے لیے ہے۔ اس حدیث میں عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ومنقبت نمایاں طور پرجھلک رہی ہے۔ دراصل خواب کی حقیقت یہ ہے کہ اسے ظاہر پر محمول نہ کیا جائے اور انبیاء علیہم السلام کا خواب اگرچہ وحی کا ایک حصہ ہے تاہم اس میں بھی بعض کو ظاہر پر محمول کیا جاتا ہے اور بعض کی تعبیر کی ضرورت پڑتی ہے۔ مذکورہ حدیث میں علم سے مراد لوگوں کے ساتھ آپ کی وہ شرعی سیاست و تدبیر ہے جو اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی ہوتی تھی اور آپ کو یہ خصوصیت اس وجہ سے حاصل ہوئی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں آپ کی مدت خلافت طویل رہی اور عثمان رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں آپ کی اطاعت پر لوگ زیادہ متفق تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت مختصر رہی اور اس میں فتوحات کی کثرت نہیں ہوئی جو اختلافات کے نمایاں ہونے کا ایک اہم سبب ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس مدت میں لوگوں کے ساتھ طویل معاشرت کے باعث ان میں اس طرح سیاست کرتے رہے کہ کسی نے آپ کی مخالفت نہ کی اور جب عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں فتوحات کا دائرہ وسیع ہوگیا تو اختلاف آراء واقوال کا دائرہ بھی وسیع ہوتا گیا اور آپ کی
[1] مسند أحمد، حدیث نمبر: ۲۲۲۔ الموسوعۃ الحدیثیۃ۔ اس کی سند شیخین کی شرط کے مطابق ہے۔ [2] عقیدہ اہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ الکرام۔ د/ ناصر بن علی عائض حسن الشیخ: ۱/ ۲۴۳