کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 118
یہاں تک کہ جناب عمر رضی اللہ عنہ نے حج کیا اور میں نے بھی آپ کے ساتھ حج کیا۔ جب ہم راستہ پر چل رہے تھے تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ راستہ سے تھوڑا سا ہٹے اور میں بھی آپ کے ساتھ لوٹا لے کر راستہ سے کنارے ہوا، آپ نے قضائے حاجت کی، پھر میرے پاس آئے، میں نے آپ کے ہاتھ پر پانی ڈالا اور آپ نے وضو کیا۔ میں نے کہا: اے امیر المومنین! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کون سی دو بیویاں ہیں جن کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا (التحریم:۴) عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابن عباس تم پر تعجب ہے … زہری کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم ! انہوں نے جو پوچھا تو آپ نے اسے ناپسند فرمایا، تاہم اسے آپ نے چھپایا نہیں … فرمایا: وہ حفصہ اور عائشہ ہیں۔ پھر آپ تفصیل بتانے لگے اور کہا: ہم قریش کے لوگ عورتوں پر غالب رہتے تھے، لیکن جب مدینہ آئے تو ایسے لوگوں کو پایا کہ ان پر ان کی عورتیں غالب ہوتی ہیں۔ پھر ہماری عورتیں بھی ان کی دیکھا دیکھی وہی کام کرنے لگیں۔ آپ فرماتے ہیں: میرا گھر عوالی میں بنو امیہ بن زید کے قبیلہ میں تھا، میں ایک دن اپنی بیوی پر غصے ہوا تو وہ مجھ سے بحث وتکرار کرنے لگی، میں نے اسے ڈانٹا کہ تم مجھ سے بحث وتکرار کرتی ہو۔ اس نے کہا: میں آپ سے بحث وتکرار کرتی ہوں تو آپ مجھ کو ڈانٹ رہے ہیں، حالانکہ اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات آپ سے بحث وتکرار کرلیتی ہیں اور ان میں سے بعض تو دن بھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات بھی نہیں کرتیں۔ آپ کا بیان ہے کہ میں چلا اور حفصہ کے پاس پہنچا اور کہا: کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث وتکرار کرلیتی ہو؟ اس نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: اور کیا تم دن بھر آپ سے بات بھی نہیں کرتی ہو؟ اس نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: تم میں سے جس نے بھی ایسا کیا ہے وہ سخت خسارے اور نقصان میں ہے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات سے مامون ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کی وجہ سے اس پر اللہ کا غضب نازل ہوجائے اور وہ ہلاک ہوجائے؟ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث ومباحثہ مت کرنا اور نہ آپ سے کسی چیز کا مطالبہ کرنا، جو تمہیں ضرورت ہو وہ مجھ سے مانگو اور تمہیں یہ چیز دھوکے میں نہ ڈال دے کہ عائشہ تمہارے مقابلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب ہیں اور ان کا درجہ بلند ہے۔ آپ فرماتے ہیں: میرا ایک انصاری پڑوسی تھا، ہم اپنی اپنی باری سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے، ایک دن وہ آتا اور ایک دن میں آتا۔ وہ میرے پاس وحی وغیرہ کی خبریں لاتا اور میں بھی اسی طرح کرتا۔ ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ غسانی اپنے گھوڑوں کو نعل لگا رہے ہیں تاکہ ہم سے جنگ کریں، ایک دن میرا (انصاری) ساتھی شام کے وقت میرے پاس آیا اور میرا دروازہ کھٹکھٹایا، پھر مجھے آواز دی، میں اس کی طرف گیا، اس نے کہا: ایک بہت بڑا حادثہ پیش آگیا! میں نے کہا: وہ کیا؟ کیا غسانیوں نے حملہ کردیا؟ اس نے کہا: نہیں، بلکہ اس سے بھی بڑا اور پیچیدہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی۔ میں نے کہا: حفصہ بہت خسارے اور
[1] صحیح البخاری، کتاب الاستقراض، حدیث نمبر: ۲۲۶۶ [2] صحیح البخاری، کتاب النکاح، حدیث نمبر: ۵۱۲۲۔ عمر بن الخطاب، محمد رشید، ص: ۲۳