کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 112
’’دن کے دونوں کناروں میں نماز قائم کر اور ات کی کچھ گھڑیوں میں بھی، یقینا نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔‘‘ پھر اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میرے لیے یہ خاص ہے یا تمام لوگوں کے لیے عام ہے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے سینے پر اپنا ہاتھ مارا اور کہا: نہیں، تیرے لیے خاص نہیں، تب تو نہ تیرے لیے یہ مسرت کی بات ہے اور نہ دوسروں ہی کے لیے بلکہ یہ سب کے لیے ہے۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عمر نے سچ کہا۔ [1] ۸۔ اپنے صدقہ کو واپس لینے والے کا حکم: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک گھوڑا اللہ کے راستہ میں دے دیا، لیکن اسے اس کے مالک نے ضائع وبرباد کردیا، میں نے اسے خریدنا چاہا اور سوچا کہ وہ اسے سستی قیمت پر فروخت کر دے گا۔ میں رک گیا اور کہا کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لوں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: تم اسے نہ خریدو اگرچہ وہ ایک درہم ہی میں کیوں نہ دے، کیونکہ جو اپنے صدقہ کو واپس لیتا ہے اس کی مثال اس شخص جیسی ہے جو قے کر کے پھر اسے چاٹتا ہے۔ [2] ۹۔ آپ کے صدقات واوقاف: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عہد نبوی میں ’’ثمغ‘‘ نامی اراضی اللہ کے راستہ میں وقف کردی، اس میں کھجور کے درخت تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے ایسا مال ملا ہے جو میرے نزدیک سب سے نفیس مال ہے اور میں اس کو صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((تَصَدَّقَ بِأَصْلِہٖ لَا یُبَاعُ وَلَا یُوْہَبُ وَلَا یُوْرَثُ وَلٰکِنْ یُنْفَقُ ثَمَرَہُ۔)) ’’اس کے اصل کو وقف کردو، نہ اسے فروخت کیا جائے اور نہ ہبہ کیا جائے، نہ اس میںو راثت جاری کی جائے۔ البتہ اس کا پھل خرچ کیا جائے گا۔‘‘ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے وقف کردیا۔ آپ کا یہ صدقہ اللہ کے راستہ میں، گردن آزاد کرانے میں، مسکینوں، مہمانوں، مسافروں اور قرابت داروں میں خرچ ہوتا رہا۔ جو اس کا نگراں ہو اس کے لیے اس میں سے معروف طریقہ سے کھانے یا اپنے دوست کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اسے مال دار بنانا مقصود نہ ہو۔ [3] ایک روایت میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک زمین حاصل ہوئی، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر
[1] مسند أحمد، حدیث نمبر:۲۰۵ الموسوۃ الحدیثیۃ۔ اس کی سند قوی ہے۔ [2] سعد بن سالم، شیبہ بن ربیعہ کے غلام ہیں اور صحابی ہیں ۔ محض الصواب: ۲/ ۷۰۰ [3] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۹۲۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۳۶۰ [4] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۹۳۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۳۵۹