کتاب: حدیث جبریل - صفحہ 62
تحقیق مؤمنین فلاح پاگئے ،جواپنی نمازوں میں خشوع وخضوع اختیار کرتے ہیں۔ (کان رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی وفی صدرہ أزیز کأزیز المرجل،من البکائ) یعنی:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نمازپڑھتے تو رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے ہنڈیاکے جوش مارنے جیسی آوازیں آیا کرتی تھیں۔ ایک حدیث میں اس نماز کی فضیلت وارد ہے جس میں انسان اپنے چہرے اوردل کی یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہو(یقبل علیھما بوجہہ وقلبہ)جبکہ ایک حدیث میں (لایحدث فیھما نفسہ)بھی واردہے۔ اس توجہ ،یکسوئی اور خشوع وخضوع کی حفاظت کی اہمیت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر کثرت سے شیطانی وساوس وارد ہورہے ہوں تو نماز کے دوران ہی تفل( ہلکا سا لعابِ دہن تھتھکارنا) کیاجائے ،پھر شیطان سے تعوذ کیاجائے ،تاکہ وساوس کاغلبہ ختم ہواور تفل وتعوذ کے عمل سے شیطان ذلیل ہو اوربندہ اپنی نماز کی توجہ بحال کرنے میںکامیاب ہوجائے۔ بعض علماء نے ایسی نماز کو فاسد قراردیا ہے جس میں ایک شخص عمداًپورے تسلسل کے ساتھ ،کسی ایک نکتہ پر غوروخوض کرتا رہے۔ لیکن وہ شخص انتہائی سعادت اوراجرِ عظیم کامستحق ہوگا،جس پر اگر نماز میں خیالات وارد ہوںاور وہ انہیں ٹالنے اور دہتکارنے کی جدوجہد میں مصروف رہے ،تاکہ حضورِ قلبی اور توجہ کوقائم رکھ سکے۔ یقینا یہ عمل مجاہدہ کہلائے گا اور اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانِ مبارک منطبق ہوگا: (المجاھد من جاھد نفسہ)اصل مجاہد تو وہ ہے جواپنے نفس کے ساتھ جہادکرے۔تو ان وارد ہونے والے وساوس کو دفع کرنا اور اپنے دیہان کو اپنی نماز کی جانب مبذول کرنا،مجاہدہ ہی قرار پائے گا۔ حفاظتِ نماز کے تعلق سے ہماری تاریخ،سلف صالحین کے زریں واقعات سے بھری پڑی ہے،تاریخ کے ان اوراق کو ضرور دیکھا جائے تاکہ سیرتِ سلف صالحین،ہماری نمازوں کی اصلاح اور سچے اہتمام کا ذریعہ بن جائے۔اور یہ عظیم عمل ہمارے میزانِ حسنات کیلئے مقبول ومحفوظ بن جائے۔