کتاب: حدیث جبریل - صفحہ 49
موجود نہ پاکر اس کے متعلق پوچھتے ہیں ،صحابہ نے جواب دیا کہ اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد سے وہ اپنے گھر میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں اورمسلسل رورہے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جاؤانہیں لیکر آؤ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بلانے پر وہ آگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مایبکیک یاثابت ؟)اے ثابت تم کیوں روتے ہو،ثابت نے جواب دیا:چونکہ میری آواز سب سے اونچی ہے تومجھے خدشہ ہے کہ یہ آیتِ کریمہ میرے ہی بارے میں نازل ہو ئی ہے،اور اس آیت کے آخر میں یہ بیان ہے کہ تمہاری تمام نیکیاں برباد ہوسکتی ہیں اورتمہیں اس کا علم بھی نہیں ہونے پائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس کو تسلی دی اوراس موقع پر یہ بھی فرمایا: (أما ترضی أن تعیش حمیدا وتقتل شھیدا وتدخل الجنۃ)کیا تمہیں یہ بات جان کر خوشی نہ ہوگی کہ تم قابل تعریف زندگی گذاروگے اور شہادت کی موت پاؤگے اورقیامت کے دن جنت میں داخل کردیئے جائیںگے۔(انتہیٰ کلامہ ملخصاً) ثابت بن قیس کی ساری زندگی سعادت کا مرقع رہی اور مسلیمہ کذاب کی فوجوں سے جہاد کرتے ہوئے شہادت کاتمغہ بھی سینے سے سجالیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بموجب قیامت کے دن جنت میں بھی داخل ہوجائیں گے۔ سبحان اللہ یہ خوشخبری حدیث رسول اور آوازِ رسول کے احترام اور اللہ تعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے حاصل ہوئی ،تووہ شخص کتنے عظیم رتبہ پر فائز ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی خشیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ کی اس طرح اتباع کرتا ہے کہ ان کے مقابلے میں کسی کا قول آجائے ٹھکرادیتا ہے،نیز اس اتباع میں خالصیت کے پہلو کو اس طرح ملحوظ رکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں کسی بدعت کا ارتکاب نہیں کرتا۔ ﷲ الحمدوالمنۃ کہ اہل الحدیث اس انتہائی مبارک منہج پر فائز ہیں، ان کے دلوں میں احادیثِ رسول کااحترام اور ان کے عقائد واعمال میں احادیثِ رسول کی اتباع وامتثال کا پوراپورا رنگ