کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 89
"وَآتُوا الْيَتَامَى أَمْوَالَهُمْ" "اور یتیموں کو ان کے مال دے دو۔"[1] نیز فرمایا: "وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ " "اور یتیموں کو ان کے بالغ ہوجانے تک سدھارتے اور آزماتے رہو،پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حسن تدبیر پاؤ تو انھیں ان کے مال سونپ دو۔"[2] نیز فرمایا: "فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللّٰهِ حَسِيبًا " "پھر جب انھیں ان کے مال سونپوتو گواہ بنالو اور حساب لینے والا اللہ ہی کافی ہے۔"[3] یعنی جب سرپرست یتیموں کی دیکھ بھال کرتے ہیں،پھر ان کے مال ان کے سپرد کرتے ہیں تو اس وقت اللہ ہی کافی محاسب اور گواہ ہے۔اور وہ دیکھ رہا ہے کہ وہ یتیموں کو ان کے پورے کے پورے مال حوالے کرتے ہیں یا ان میں کمی کرتے(اور خیانت کاارتکاب کرتے) ہیں۔ صلح کے احکام صلح کے لغوی معنی"جھگڑا ختم کرنا" کے ہیں جبکہ شریعت کی اصطلاح میں"دو جھگڑنے والے افراد کے درمیان پیدا شدہ اختلافات ختم کرنے کے معاہدے کو صلح کہتے ہیں۔"یایوں کہہ سکتے ہیں کہ صلح سے مراد وہ معاہدہ ہے جس سے دو افراد کا باہمی نزاع ختم ہوجائے۔ صلح ایک ایسا معاہدہ ہے جس کے بہت سے فائدے ہیں،اسی لیے بوقت ضرورت اس میں جھوٹ کی آمیزش کو جائز قراردیا گیا ہے۔ صلح کی مشروعیت قرآن،حدیث اور اجماع سے ثابت ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: "وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ""اور صلح بہت بہتر چیز ہے۔"[4] ایک اورمقام پر فرمایا:
[1] ۔النساء:4/2۔ [2] ۔النساء:4/6۔ [3] ۔ النساء:4/6۔ [4] ۔النساء:4/128۔