کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 86
"وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ " "اور تم یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وہ اپنے سن بلوغ کو پہنچ جائے۔"[1] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ آیت: "وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ " "اور تم یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے۔"[2] اور یہ آیت: "إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا " "جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وه اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں ۔ "[3] نازل ہوئی تو جس شخص کے پاس یتیم تھا اس نے گھر جاکر فوراً یتیم کاکھانا پینا اپنے کھانے پینے سے الگ کرلیا۔اور اگریتیم کا کھانا بچ جاتا تو اسے الگ رکھ دیا جاتا حتیٰ کہ یتیم خود کھالیتا یا پڑا پڑا خراب ہوجاتا۔یہ صورت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر گراں گزری،انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اس کا ذکر کیا تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: "وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ ۚ " "اورآپ سے یتیموں کے بارے میں سوال کرتے ہیں،آپ کہہ دیجیے کہ ان کی خیر خواہی بہتر ہے،تم اگر ان کامال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں۔"[4] "تب انھوں نے ان کا کھاناپینا اپنے کھانے پینے کے ساتھ شامل کرلیا۔"[5] یتیموں کے ساتھ تعاون اور ہمدردی کی بہترین صورت یہ ہے کہ ان کے اموال نفع بخش تجارت کے کاموں میں لگائے جائیں یا ولی اور نگران خود اس سے تجارت کرے یاکسی شخص کو بطور مضاربت ان کا مال دےدے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کا مال تجارت پر لگادیا تھا۔سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا ہے: " اتَّجِرُوا فِي أَمْوَالِ الْيَتَامَى، لَا تَأْكُلْهَا الزَّكَاةُ " "تم یتیموں کے مال تجارت میں لگاؤ ایسا نہ ہوکہ زکاۃ انھیں ختم کردے۔"[6]
[1] ۔الانعام 6/152۔ [2] ۔الانعام:6/152۔ [3] ۔النساء:4/10۔ [4] ۔البقرۃ: 2/220۔ [5] ۔ تفسیر ابن کثیر 1/346 البقرۃ:2/220۔ [6] ۔ السنن الکبریٰ للبیہقی 4/107۔والمعجم الاوسط للطبرانی 5/90حدیث 4164 واللفظ لہ۔