کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 81
"اگر (مفلس ) مشتری فوت ہو گیا تو سامان کا مالک دوسرے قرض خواہوں کی طرح ہو گا۔"[1] 2۔ اس شے کی پوری قیمت مفلس کے ذمے ہو۔ اگر صاحب مال نے اپنی شے کی کچھ قیمت وصول کر لی تو اب اپنی شے واپس لینے کا مستحق نہیں۔ 3۔ متعین شے مکمل طور پر مفلس کی ملکیت میں ہو۔ اگر اس کا کچھ حصہ مفلس کے پاس ہے اور باقی حصہ اس کے پاس نہیں تو وہ اسے واپس نہ لے گا کیونکہ مالک نے اپنی مکمل شے اس کے پاس نہیں پائی۔ 4۔ وہ شے اپنی سابقہ حالت میں قائم ہو، یعنی اس کی کوئی صفت تبدیل نہ ہوئی ہو۔ 5۔ اس شے کے ساتھ کسی دوسرے شخص کا حق وابستہ نہ ہو، مثلاً:مفلس نے اسے کسی کے پاس گروی نہ رکھ دیا ہو۔ 6۔ اس شے میں کوئی متصل اضافہ نہ ہو چکا ہو۔ مثلاً شے کا ہونا یا بڑا ہو جانا۔ جب یہ چھ شرائط کسی شے میں موجود ہوں تو درج بالا روایت کے مطابق صاحب سامان اپنی شے مفلس سے واپس لے سکتا ہے۔ تیسرا حکم کسی نے مفلس شخص پر پابندی لگنے سے لے کر پابندی اٹھنے تک کی مدت کے دوران میں مفلس کوکوئی شے فروخت کی یا اسے بطور قرض دی تو وہ پابندی اٹھنے سے پہلے اس سے کوئی مطالبہ نہیں کر سکتا بلکہ پابندی اٹھنے کے بعد اپنی شے کا مطالبہ کرے گا ،یعنی وہ پابندی لگنے سے پہلے کے قرض خواہوں میں شامل ہو گا۔ چوتھا حکم حاکم مفلس کا موجود مال فروخت کرے گا اور اس کی قیمت قرض خواہوں کے درمیان ان کے فوری واجب الادا قرضوں کے تناسب سے تقسیم کرے گا کیونکہ حجر کا مقصد یہی تھا اس میں تاخیر کرنا یا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے، البتہ حاکم مفلس کی بنیادی ضروریات کا سامان، یعنی گھر ، برتن اور آلات وغیرہ فروخت نہیں کرے گا۔ وہ قرض جس کی ادائیگی کچھ مدت کے بعد ہونی ہے، دیوالیہ قرار پانے کی صورت میں اس کی فوری ادائیگی کے مطالبے پر عمل نہ ہو گا ،یعنی وہ ان قرضوں کے حکم میں نہیں ہو گا جن کی ادائیگی کا وقت آچکا ہے کیونکہ مقررہ مدت تک مہلت مفلس کا حق ہے جو دوسرے حقوق کی طرح ساقط نہ ہو گا۔ مفلس کا روکاہوا مال موجود قرض خواہوں پر تقسیم ہو گا ۔اگر قرضے مکمل طور پر ادا ہو جائیں تو حاکم کے حکم کے بغیر ہی" حجر" کی پابندی ختم ہو جائے گی کیونکہ حجر کی پابندی کا سبب ختم ہو گیا ہے۔ اگر قرضے مکمل ادانہ ہوں بلکہ مفلس پر کچھ قرضے باقی رہیں تو حجر قائم رہے گا۔البتہ حاکم چاہے تو حجر ختم کر سکتا ہے کیونکہ حجر کا حکم اسی نے جاری کیا تھا۔ دوسری قسم، یعنی کسی انسان کو اس کے اپنے فائدے کے لیے مالی تصرف سے روک دینا تاکہ اس کامال محفوظ رہے۔
[1] ۔سنن ابی داؤد البیوع باب فی الرجل یفلس فیجد الرجل متاعہ بعینہ عندہ، حدیث 3520۔