کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 74
اگر کسی کو وکیل مقرر کیا گیا ہو تو وہ وکیل ان امور میں کسی دوسرے شخص کو وکیل نہ بنائے مگر چند صورتوں میں جو درج ذیل ہیں: 1۔ اگر مؤکل خود اجازت دے دے تو وکیل آگے کسی اور کوبھی اپنا وکیل مقرر کر سکتا ہے ۔مثلاً: مؤکل وکیل کو اجازت دیتے وقت کہے:" تم چاہو تو کسی کو وکیل مقرر کر سکتے ہو۔" یا وکیل کو کہے ۔" جو چاہو کرو۔" 2۔ جب کوئی کام وکیل کے شایان شان نہ ہو، مثلاً: وکیل کا شمار ان معززین میں ہوتا ہو جو اس جیسے معمولی کام کرنے سے بالا تر ہیں۔ 3۔ وکیل مؤکل کا مذکورہ کام کرنے سے عاجز ہو۔ 4۔ جب وکیل مؤکل کے کام کو بہتر انداز سے نہ کر سکتا ہو۔ ان مذکورہ احوال میں وکیل کو چاہیے کہ کسی دوسرے امانت دار شخص کو وکیل مقرر کرے کیونکہ اسے غیر امین شخص کو وکیل مقرر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ وکیل مقرر کرنا اور وکیل بننا دونوں جائز ہیں کیونکہ وکالت مؤکل کی طرف سے اجازت کانام ہے اور وکیل کی طرف سے نفع پہنچانے کانام ہے اور یہ دونوں لازم نہیں، لہٰذا وکیل اور مؤکل میں سے جو بھی چاہے وکالت فسخ کر سکتا ہے۔ فسخ وکالت وکیل یا مؤکل کوئی بھی وکالت فسخ قراردے سکتا ہے یا دونوں میں سے ایک کی موت سے یا جنون سے وکالت ختم ہو جاتی ہے کیونکہ وکالت کا دارومدار زندگی اور عقل پر ہوتا ہے۔ جب دونوں نہ رہیں تو وکالت بھی قائم نہ رہی۔ اسی طرح مؤکل وکیل کو معزول کر دے تو وکالت ختم ہو جاتی ہے۔ کسی شخص کو اس کی عقل کی کمزوری کی وجہ سے مالی تصرفات سے روک دیا گیا ہو۔ وہ وکیل ہو یا مؤکل تو وکالت ختم ہو جائے گی کیونکہ اس میں تصرف کی اہلیت باقی نہیں رہی۔ وکیل بننا یا وکیل بنانا جو شخص ایک کام کرنے کا قانونی اختیار رکھتا ہو وہی وکیل بنا سکتا ہے یا بن سکتا ہے۔ جس شخص کے لیے خود تصرف جائز نہیں، اس کے نائب کے لیے بالاولیٰ جائز نہیں۔ وکیل درج ذیل افراد سے خریدو فروخت نہیں کر سکتا۔ 1۔ وہ اپنے آپ سے کوئی شے خرید سکتا ہے نہ فروخت کر سکتا ہے کیونکہ عرف میں بیع اسے کہتے ہیں جب کسی غیر کو شے فروخت کی جائے۔ مزید یہ کہ اس طرح اس پر الزام بھی لگنے کا اندیشہ ہے۔