کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 71
دوسرے کی بھی ایک ماہ مدت ہو ،کمی بیشی نہ ہو۔ 3۔ محیل (حوالہ کرنے والا) رضا مند ہو، اس لیے کہ حوالہ کرنے والے نے اگرچہ قرض دینا ہے مگر اس پر یہ لازم نہیں کہ حوالہ ہی کی صورت میں ادا کرے۔ محال علیہ کی رضا مندی شرط نہیں جیسا کہ محال (جس کے حوالے کیا جا رہا ہے) کا راضی ہو نا شرط نہیں جبکہ اسے ایسے غنی کے حوالے کیا جا رہا ہو جو ٹال مٹول نہیں کرتا بلکہ اسے حوالہ کو قبول کرنے پر مجبور کیا جائے گا کہ وہ محال علیہ سے اپنا حق خود طلب کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيءٍ فَلْيَتْبَعْ" "قرض کی ادائیگی میں غنی کا تاخیر کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی (کے قرض) کو غنی کے حوالے کیا جائے تو وہ اسے قبول کر لے۔"[1] ایک روایت کے الفاظ ہیں: " وَمَنْ أُحِيلَ عَلَى مَلِيءٍ فَلْيَحْتَلْ" "جس کو کسی مال دار کے حوالے کیا جائے تو وہ اس حوالے کو قبول کر لے۔"[2] اگر محال علیہ مالدار نہیں تو محال پر لازم نہیں کہ وہ حوالہ کو ضرور قبول کر لے اور نہ اسے مجبور کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں اس کا نقصان ہے۔ جن حضرات کے ذمے لوگوں کے حقوق ہیں اور ان میں انھیں ادا کرنے کی قدرت بھی ہے تو چاہیے کہ وہ حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے انھیں جلد ادا کریں۔ اگر کسی حوالہ کو قبول کریں تو ٹال مٹول کیے بغیر اسے پورا کریں۔ حدیث کے لفظ: ملیء سے مراد ہے جو قرض ادا کرنے پر قادر ہواور ٹال مٹول سے کام نہ لیتا ہو۔ بعض لوگ ادائیگی حقوق میں قدرت و طاقت کے باوجود بغیر کسی شرعی عذر کے تاخیر اور سستی کر جاتے ہیں ۔ محال کو ٹال مٹول کے ذریعے سے اس قدر پریشان کرتے ہیں کہ لوگ حوالہ کو خوفناک یا بے کار شے سمجھنے لگے ہیں بلکہ لوگوں کے ظلم کے سبب اس سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ جب حوالہ درست ہو، یعنی اس میں مذکورہ تمام شرائط موجود ہوں تو محیل کا ذمہ محال علیہ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور محیل اس حق کی ادائیگی سے بری ہو جاتا ہے،لہٰذا محال کے لیے مناسب نہیں کہ وہ محیل کی طرف دوبارہ رجوع
[1] ۔صحیح البخاری الحوالات باب الحوالہ وھل یرجع فی الحوالہ ؟حدیث:2287۔2288وصحیح مسلم المساقاۃ باب تحریم مطل الغنی۔ حدیث 1564۔ [2] ۔مسند احمد:2/463۔