کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 64
رہن کے عوض لیے ہوئے قرض کی ادائیگی کا مقرر وقت آجائے تو مقروض پر لازم ہے کہ فوراً قرض ادا کرے، جیسے بلا رہن قرض وقت پر ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ یہی عقد کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهُ " "جسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کر دے اور اللہ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے۔[1] اگر اس نے قرض ادا نہ کیا تو سمجھا جائے گا کہ وہ ٹال مٹول کر رہا ہے اس وقت قاضی اسے قرض ادا کرنے پر مجبور کرے گا۔ اگر وہ بھی آمادہ نہ ہوا تو اسے قید یا کوئی اور سزا دی جائے گی حتی کہ وہ مکمل قرض ادا کر دے یا رہن کی شے کو فروخت کر کے مرتہن کو اس کے قرض کی رقم کے مطابق دے دے۔ یہ قرض خواہ کا حق ہے کیونکہ رہن کا مقصد بھی یہی تھا کہ قرض محفوظ ہواور بوقت ضرورت رہن کو فروخت کر کے قرض کی رقم ادا کی جا سکے ۔ اگر قرض کی رقم ادا کرکے کچھ مال بچ گیا تو وہ راہن (مقروض) کو لوٹا دیا جائے گا کیونکہ وہ اس کا مالک ہے۔ اور اگر فروخت شدہ رہن سے قرض پورا نہ ہو سکا تو باقی قرض کی ادائیگی راہن کے ذمے رہے گی۔ "مرتہن "(قرض خواہ ) رہن رکھے ہوئے جانور پر خرچہ کرنے کے بدلے میں اس پر سواری کرسکتا ہے، بشرطیکہ وہ سواری کے قابل ہو اور اس کا دودھ پی سکتا ہے نفقہ کے بدلے میں۔ اس بارے میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "اَلظَّهْرُ يُرْكَبُ بِنَفَقَتِهِ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا, وَلَبَنُ اَلدَّرِّ يُشْرَبُ بِنَفَقَتِهِ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا, وَعَلَى اَلَّذِي يَرْكَبُ وَيَشْرَبُ اَلنَّفَقَةُ" "مرہون " جانور پر خرچ کے عوض سواری کی جا سکتی ہے اور اس دودھ دینے والے "مرہون" جانور کا دودھ پیا جا سکتا ہے اور جو سوار ہو گا اور دودھ پیے گا وہ خرچ ادا کرے گا۔"[2] واضح رہے کہ اگر مرتہن خرچ سے زائد نفع حاصل کرے گا تو یہ درست نہیں بلکہ اس کا کرایہ یا اجرت راہن کو واپس کرے۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"درست بات جو شریعت کے اصولوں سے ثابت اور حدیث اس پر دلالت کرتی ہے وہ ہے کہ بے شک گروی جانور اللہ کے حق کی بنا پر بذات خود محترم ہے جبکہ مالک کے لیے اس میں حق ملکیت ہے اور مرتہن (قرض خواہ) کے لیے اس میں حق تو ثیق و اعتماد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے گروی شے قرض خواہ
[1] ۔البقرۃ:2۔283۔ [2] ۔صحیح البخاری الرہن فی الحضر باب الرہن مرکوب و محلوب ،حدیث:2512۔