کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 56
ذکر اور تعین کرنا ضروری ہے۔ جس جگہ ادائیگی پر دونوں متفق ہوں اس کے مطابق عمل کیا جائے ۔اگر دونوں میں اختلاف ہو تو"محل معاہدہ"ہی ادائیگی کی جگہ طے پائے گا بشرطیکہ وہاں ادائیگی ممکن ہو۔ بیع سلم کے احکام میں یہ بھی ہے کہ جس چیز میں بیع سلم ہوئی ہو خریدار اسے وصول کرنے سے پہلے کسی اور ہاتھ فروخت نہیں کر سکتا کیونکہ حدیث میں ہے۔ " أَنّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:نَهَى عَنْ بَيْعِ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ. " "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے والی شے کی بیع کرنے سے اس وقت تک منع فرمایا جب تک وہ قبضہ میں نہ آجائے۔"[1] بیع سلم میں حوالہ جائز نہیں ،یعنی فروخت کرنے والا خریدار کو کہے کہ یہ چیز مجھ سے وصول کرنے کے بجائےفلاں شخص سے وصول کر لینا۔ یہ منع ہے کیونکہ حوالہ ایک ثابت قرض کے بارے میں ہو سکتا ہے جبکہ سلم میں فسخ کا امکان ہے۔ بیع سلم کا ایک حکم یہ ہے کہ جب وقت مقرر پر مسلم فیہ (سامان یا چیز) میسر نہ ہو، مثلاً: کسی پھل کی ادائیگی کے بارے میں بیع سلم ہوئی تھی لیکن اس سال درختوں پر پھل نہ لگا تو مشتری ایک سال صبر کرے حتی کہ بائع کو پھل حاصل ہو جائے۔ پھر اس کا مطالبہ کرے یا بیع کو فسخ قراردے کر اپنی رقم کا مطالبہ کرے کیونکہ جب معاہدہ قائم نہ رہا تو رقم کی واپسی ضروری ہے۔ اگر رقم ضائع یا خرچ ہو گئی تو اس کے بدلے میں اور رقم ادا کرے۔ "بیع سلم" کے معاملے کی اباحت و جواز شریعت اسلامیہ کی طرف سے لوگوں کے لیے سہولت و آسانی ہے اور ان کے لیے خیرو مصلحت ہے،نیز بیع کی یہ صورت سود اور ممنوعات سے منزہ و مبرا ہے۔ قرض کے احکام قرض کےلغوی معنی ’’ کاٹنے‘‘کے ہیں۔چونکہ قرض دینے والا اپنے مال میں سے کچھ حصہ کاٹ کر قرض مانگنے والے کو دیتا ہے، اس لیے اسے" قرض" کہتے ہیں۔ قرض کے شرعی معنی ہیں:"کسی شخص کو مال دینا تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کرے اور مقرر وقت میں اس کا متبادل لوٹادے۔" قرض تعاون اور ہمدردی کرنے کا نام ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے" عطیہ " قراردیا ہے جسے مقروض فائدہ اٹھا کر
[1] ۔المعجم الکبیر للطبرانی :11/12۔حدیث:10875۔