کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 54
’’یہ مجلس عقد میں نقد ادا کردہ رقم کے عوض ایک ایسی چیز عقد ہے جس کے اوصاف طے، بائع کے ذمہ میں ہے اور مدت معلوم و مقرر ہے۔‘‘ قرآن و سنت اور اجماع کی روشنی میں بیع سلم جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ " "اے ایمان والو! جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرر پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔"[1] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے:"میں شہادت دیتا ہوں کہ بیع سلف (سلم) جس کی ذمے داری ایک مقررہ مدت کے لیے ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے (قرآن مجید میں) حلال قراردیا ہے اور اس کی اجازت دی ہے، پھر وہ (درج بالا) آیت تلاوت کرتے۔"[2] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:" جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہ (اہل مدینہ) دوسال اور تین سال کی میعاد پر پھلوں کی" بیع سلم"کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مَنْ أَسْلَفَ فِي شَيْءٍ ، فَفِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ " " جو شخص کسی سامان میں بیع سلم کرتا ہے تو وہ معین ناپ اور مقرر وزن میں ایک متعین مدت تک کے لیے " بیع سلم "کرے۔"[3] اس روایت سے واضح ہوا کہ بیع سلم مذکورہ شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے اس کے جواز پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے، نیز لوگوں کو اس کی ضرورت بھی پیش آتی ہے کیونکہ اس میں بائع کو قیمت اور مشتری کو سامان بوقت ضرورت مل جاتا ہے۔ بیع سلم درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے: 1۔ مجلس معاہدہ میں مبیع (فروخت ہونے والی)شے کا تعین صفات کے ساتھ اس طرح ہو کہ اس کی جنس نوع اور مقدار واضح ہو جائے تاکہ بعد میں فریقین کے مابین کسی قسم کا اختلاف پیدا نہ ہو جو جھگڑے کی صورت اختیار کر جائے جس چیز کی صفات مختلف فیہ ہوں ان میں بیع سلم جائز نہیں، مثلاً:ترکاریاں چمڑے مختلف برتن اور جو اہر وغیرہ۔
[1] ۔البقرۃ 2/282۔ [2] ۔تفسیر الطبری :3/117،حدیث:4947، والمستدرک للحاکم 2/314،حدیث:3130۔ [3] ۔صحیح البخاری ، السلم، باب السلم فی وزن معلوم حدیث :2240۔