کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 528
"(اور بلاشبہ ہم نے نوح علیہ السلام کو اس کی قوم کی طرف بھیجا)،چنانچہ وہ پچاس کم ایک ہزار برس ان کےدرمیان رہا۔"[1] نصف سے اکثرکےاستثناء کو علماء کی کثیر تعداد نے جائز قراردیاہے۔ (10)۔اقرار میں استثناء کی صحت کے لیے اس کاالفاظ میں متصل ہونا شرط ہے۔اگر اس نے کہا:"میں نے اس کے سو روپے دینے ہیں۔"پھر وہ اس قدر خاموش رہا کہ اس وقفہ میں کوئی بات کرنا ممکن تھی(لیکن نہ کی)،پھر کچھ دیر کے بعد کہا:" کھوٹے"یا"ادھار" تو اس کے ذمے سو روپے کھرے اور نقد ہوں گے۔خاموشی کے بعد اس نے جو کہا وہ قابل التفات نہ ہوگا کیونکہ یہ حیلہ کرکے ایک ایسے حق کو ختم کررہا ہے جس کی ادائیگی اس پر لازم ہے۔ (11)۔اگر کسی نے ایک شے بیچ دی یا ہبہ کردی یا لونڈی ،غلام کو آزاد کردیا اورپھر اقرار کرتے ہوئے کہا:یہ شے دوسرے آدمی کی تھی تو اس کی بات قبول نہ ہوگی۔اور اگر بیع کا معاملہ ہے تو وہ فسخ نہ ہوگی کیونکہ یہ اقرار کسی اور کے بارے میں ہے،البتہ اس پر ضروری ہوگا کہ جس کے حق کا اقرار کیا تھا،اس کانقصان پورا کرے کیونکہ اس کے تصرف کی وجہ سے وہ مال مالک کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ (12)۔مجمل شے کا اقرار کرنادرست ہے،یعنی جس میں اقرار کرنے والے کے نزدیک دویازیادہ اشیاء میں سے کوئی بھی مراد لیے جانے کا امکان ہو،مثلاً:جب کسی انسان نےکہا:" میں نےفلاں شخص کوکوئی شے ادا کرنی ہے۔"تو اس کااقرار درست ہوگا،البتہ اقرار کرنے والے کواقرار کی وضاحت کرنے کا کہاجائے گاتاکہ اس کی ادائیگی اس کے ذمے لازم قرار دی جاسکے۔اگر وہ انکار کردے تو اس وقت تک قید میں رکھا جائے جب تک اقرار کی وضاحت نہ کردے۔یہ اس کی ذمےداری ہے۔اگر اس نے کہا:"مجھے معلوم نہیں کہ میں نے کسی چیز کااقرار کیا ہے تو اسے قسم اٹھانے کو کہا جائے گا اور اس پر کم از کم جرمانہ عائد ہوگا۔اگر وہ وضاحت سےپہلے فوت ہوجائے تو اس کے وارثوں سے کسی چیز کامطالبہ نہیں کیا جائےگا اگرچہ وہ مال چھوڑ کرمرا ہو کیونکہ احتمال ہے کہ اس نے جو اقرار کیاتھا وہ مال نہ ہو۔ (13)۔اگر کسی نے کہا:میں نےفلاں شخص کے ایک ہزارروپے سے کم دینے ہیں تو استثناء کی مقدار نصف سے کم سمجھی جائے گی۔ (14)۔اگر کسی نے کہا:اس دیوار سےلے کر اس دیوار تک فلاں کی زمین ہے تو اس اقرار میں دیواریں شامل نہیں
[1] ۔العنکبوت 29/14۔