کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 526
(7)۔قسم میں تاکیدی الفاظ صرف ان معاملات میں استعمال کیے جائیں گے جن کی بہت زیادہ اہمیت ہے،مثلاً:ایسا جرم جس سے قصاص،دیت یاکفارے کے طور پر غلام آزاد کرنا واجب نہیں ہوتا،اس صورت میں قاضی تاکیدی الفاظ کے ساتھ قسم کھانے کا حکم دے سکتا ہے،مثلاً:" اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو پوشیدہ اور ظاہر معاملات سے باخبر ہے جو مواخذہ کرسکتا ہے،غالب ہے،جو نفع نقصان کا مالک ہے ،جو آنکھوں کی خیانت اور دلوں کی پوشیدہ باتوں سے باخبر ہے۔" (8)۔اگر مدعی فریق ایک سے زیادہ افراد پرمشتمل ہومدعا علیہ ایک آدمی ہوتو مدعا علیہ ہر مدعی کے لیے الگ الگ قسم اٹھائے گا کیونکہ ہرایک کااپنا اپنا حق ہے الا یہ کہ اگروہ ایک قسم لینے پر رضا مند ہوجائیں تو کافی ہوگی کیونکہ تمام مدعی افراد اپنے حق(مطالبۂ قسم)سے خود ہی دستبردار ہوئے ہیں۔ اقرار کے احکام اقرار"کسی کے حق کااعتراف کرنے" کا نام ہے جو کہ مقر سے بنا ہے جس کے معنی ہیں:" مکان" گویا کہ اقرار کرنے والاحق کو اس کی جگہ پر رکھ دیتا ہے۔ اقرار یہ ہے کہ کسی دوسرے شخص کے حق کے بارے میں مبنی برحقیقت خبردیناہے،مزید نئے حق کا اثبات اقرار نہیں کہلاتا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" تحقیقی بات یہ ہے کہ اگرمخبر ایسے حق کی خبر دے جسے اس نے ادا کرنا ہے تو یہ اقرارہے اور اگر ایسے حق کی خبر دے جو اس نے دوسرے سے لینا ہے تو وہ مدعی ہے اور اگر ایسے حق کے بارے میں خبر دے جوکسی نے کسی اورشخص سے لینا ہے(اگر اس کے پاس وہ حق بطور امانت تھا) تو اسے مخبر کہیں گے ورنہ وہ گواہ کہلائےگا،لہذا قاضی ،وکیل،کاتب،یعنی منشی اور وصی(وصیت کرنے والا) یہ تمام حضرات اپنی اپنی ذمے داری کو ادا کرنے کی وجہ سے امانت دار ہیں،لہذا وکیل وغیرہ اپنے منصب سے معزول ہونے کے بعد جو خبر دیں وہ اقرار نہیں،عام خبر ہے۔اقرار کسی نئی ذمے داری کانام نہیں بلکہ جو چیز یاصورت حال پہلے سے موجود ہے اسی کا اظہار اوراطلاع ہے۔"[1]
[1] ۔الفتاویٰ الکبریٰ، الاختیارات العلمیۃ ،الاقرار: 5/581۔