کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 525
گی،یعنی قسم اٹھانے سے اس کے حق میں فیصلہ ہوجائے گا لیکن قسم اٹھا کر اگر کسی نے شے پر ناحق قبضہ کرلیا تو وہ شے جائز نہ ہوگی۔اگر مدعی نے مدعا علیہ کی قسم کے بعد گواہ پیش کردیے تو گواہوں کی گواہی سنی جائےگی اور ان کی بنیاد پر اس کے حق میں فیصلہ بھی ہوگا۔اسی طرح اگر مدعا علیہ نے قسم اٹھالینے کے بعد رجوع کرلیا اور لیا ہوا مال واپس کردیا تو اس کا یہ عمل قبول ہوگا اور مدعی کے لیے اسے وصول کرناجائز ہوگا۔ (1)۔قسم حقوق العباد کے دعوے کے ساتھ مخصوص ہے۔باقی رہے حقوق اللہ تو اس میں قسم نہیں لی جائے گی،مثلاً:عبادات اور حدود وغیرہ،لہذا اگر ایک آدمی نے کہا:میں نے زکاۃ ادا کردی ہے یا میرے ذمے کفارہ یانذر نہیں ہے تو اس سے قسم نہیں لی جائے گی۔اسی طرح اگر کسی پر جنایت کی وجہ سے حد جاری ہوسکتی ہے لیکن وہ اس کاانکار کررہا ہے تو اس سے قسم کامطالبہ نہ ہوگا کیونکہ اسے چھپانا مستحب ہے،نیز اگر اس نے کسی حدکا اقرار کرکے،پھر رجوع کرلیا تو اس کا رجوع قبول ہوگا اور اسے چھوڑ دیا جائے گا،لہذا اقرار نہ کرنے کی صورت میں اس سے بالاولیٰ قسم کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ (3)۔حقوق العبادکے دعوے میں قسم کی اہمیت اور اس کااعتبار تب ہوگا جب مدعی گواہ پیش نہ کرسکے،پھر قاضی مدعا علیہ کو قسم اٹھانے کا حکم دے۔اس طرح مدعا علیہ کی قسم مدعی کے جواب میں ہوگی۔ (4)۔قسم کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ وہ قاضی کی مجلس میں ہو۔ (5)۔قسم صرف اللہ تعالیٰ کی ہو،غیر اللہ کی قسم شرک ہے۔ (6)۔قسم میں اللہ تعالیٰ کے نام کا ذکر کافی ہے۔اگر کسی نے کہا:" اللہ کی قسم"تو یہ کافی ہے کیونکہ یہ قسم کتاب اللہ میں وارد ہے،جیسے اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: "وَأَقْسَمُوا بِاللّٰهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ" "ان لوگوں نے اللہ کے نام کی پختہ قسمیں کھائیں۔"[1] نیز فرمان باری تعالیٰ ہے: "فَيُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ" "پھر وہ دونوں اللہ کی قسم کھائیں۔"[2] ایک اور مقام پر فرمایا: "أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللّٰهِ ""چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کرکہے۔"[3] اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ"اللہ" باری تعالیٰ کا ذاتی نام ہے،اس کا اطلاق اس کے سوا کسی دوسرے پر نہیں ہوتا۔
[1] ۔الانعام 6/109۔ [2] ۔المائدۃ:5/107۔ [3] ۔النور 24/6۔