کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 524
2۔یہ شہادت ایسی صورت میں ہو جس میں قاضی کی تحریر دوسرے قاضی کے لیے مقبول ہوتی ہے،یعنی حقوق العباد سے متعلق ہونہ کہ حقوق اللہ سےمتعلق۔ 3۔شہادۃ الفرع وہاں قبول ہوگی جہاں شہادۃ الاصل کا پیش کرنا مشکل ہواور یہ مشکل موت،مرض،طویل مسافت کے سفر(جس میں نمازقصر کی جاسکتی ہو) یا بادشاہ کے خوف وغیرہ کی صورت میں ہوسکتی ہے۔ 4۔شاہد الاصل کاعذر مقدمے کا فیصلہ ہوجانے تک قائم رہے۔ 5۔شاہد الاصل اور شاہد الفرع دونوں فیصلہ ہونے تک عدالت(تقویٰ ونیکی) پر برقرار ہوں۔ 6۔شاہد الفرع کو شاہد الاصل نے متعین کیا ہو جس کی طرف سے وہ گواہی دے رہا ہے۔ گواہوں کا رجوع گواہوں کے گواہی سے رجوع کرلینے کی صورت میں درج ذیل تین باتیں قابل غور ہیں: 1۔ اگر مالی امور سے متعلق فیصلہ مل جانے کے بعد گواہ رجوع کرلیں تو فیصلہ متاثر نہ ہوگا کیونکہ اس کے تقاضے پورے ہوچکے ہیں،لہذا فیصلہ نافذ ہوگا،البتہ گواہوں کے ذمے تاوان ہوگا کیونکہ وہ قصور وار ثابت ہوئے ہیں کہ انھوں نے صاحب حق کے بجائے دوسرے شخص کو مال کامالک بنانے کی کوشش کی۔ 2۔ اگر قاضی ایک گواہ اورمدعی کی قسم سے کوئی فیصلہ دے،پھر گواہ رجوع کرلے تو سارے مال کاتاوان اکیلے گواہ پر ہوگا کیونکہ دعوے میں وہ حجت تھا۔باقی رہی قسم تو وہ ایک فریق کے قول کے درجے میں تھی اور فریق کا قول محض فیصلہ کرنے میں قبول نہیں ہوتا بلکہ وہ فیصلے کے لیے ایک شرط تھا۔ 3۔ اگر قاضی کےفیصلہ دینے سے قبل ہی گواہ رجوع کرلیں تو کی گئی کاروائی کالعدم ہوجائے گی۔اب نہ(اس گواہی کے مطابق) فیصلہ ہوگا نہ کسی پر تاوان۔واللہ اعلم۔ دعوے میں قسم اٹھانے کا بیان قسم بھی فیصلہ کرنے کے طریقوں میں شامل ہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: " أَنَّ الْيَمِينَ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ" "۔۔۔اور قسم اس پر ہے جو(دعوے کا) انکار کرے۔"[1] قسم منکر ِدعویٰ(مدعا علیہ) کی طرف سے ہوتی ہے بشرطیکہ مدعی کے پاس دلیل نہ ہو۔قسم جھگڑے کو ختم کردے
[1] ۔سنن الدارقطنی 3/111و 4/217 حدیث 3165و4462۔