کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 520
5۔ مال یا جس معاملے میں مال مقصود ہو،مثلاً: بیع، ادھار یا اجارہ وغیرہ تو اس میں دومردوں کی یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی قبول ہو گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: " وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ " "اور اپنے میں سے دومرد گواہ رکھ لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنھیں تم گواہوں میں سے پسند کرلو۔"[1] علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ مالی معاملات میں ایک آدمی اور دوعورتوں کی گواہی قبول ہوگی۔اسی طرح جو امور مالی معاملات سے ملحق ہیں ان کا بھی یہی حکم ہے ،مثلاً: بیع ،ادھار، بیع خیار ،رہن ،معین فرد کے حق میں وصیت کرنا ،ہبہ ،وقف، مالی ضمان ،مال کا ضیاع، مجہول النسب شخص کے غلام ہونے کا دعوی کرنا اور تعیین مہر یا خلع میں معاوضے کا تعین وغیرہ۔"[2] مالی معاملات میں عورت کی شہادت قبول کرنے میں یہ حکمت ہے کہ ایسے معاملات کثرت سے وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں، مردوں اور عورتوں کو اس سے واسطہ پڑتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے ثبوت میں وسعت رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شریعت کے متعدد احکام میں مرد کے مقابلے میں عورت کا نصف حصہ مقرر کیا ،مثلاً: گواہی کے معاملے میں ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتیں مقرر کی ہیں۔ اسی طرح میراث اور دیت میں اس کا حصہ مرد سے نصف ہے اور عقیقے میں بھی بچی کے لیے ایک بکری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت یوں بیان کی ہے: "أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ" ’’اگر ایک بھول جائے تو دوسری یاد دلا دے۔‘‘[3] آیت کریمہ عورت کے ضعیف عقل پر واضح دلیل ہے، لہٰذا ایک عورت ایک مرد کے قائم مقام نہ ہو گی۔عورت کی گواہی کلیتاً ختم کرنے میں بہت سے حقوق کا ضیاع ہو سکتا ہے، اس لیے عورت کے ساتھ ایک عورت مقرر کر دی گئی تاکہ بھول کا علاج ہو جائے۔اس طرح دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے قائم مقام قرار پائی۔ 6۔ مالی معاملات میں یا جہاں مال مقصود ہو ایک آدمی کی گواہی اور مدعی کی قسم کے ساتھ بھی فیصلہ کرنا شرعاً درست
[1] ۔البقرۃ: 2/282۔ [2] ۔ اعلام الموقعین:1/97۔ [3] ۔البقرۃ:2/282۔