کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 518
اخلاق اور پڑوسیوں سے حسن سلوک کرنا اور خود کو ایسے رذیل اور ذلیل کاموں سے بچانا جو انسان کی عزت کو داغدار کر دیتے ہیں،مثلاً:فحش گانے بولنا، لوگوں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹی مزاحیہ باتیں سنانا، وغیرہ۔ (اس میں آج کل کے ڈرامے وغیرہ بھی شامل ہیں اور گانا تو آج کل "فن"شمار ہونے لگا ہے جس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور ایسے لوگوں کی تعریف کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان فتنوں سے محفوظ رکھے۔) جب کسی میں شہادت دینے کے موانع موجود نہ رہیں، یعنی بچہ بالغ ہو جائے، مجنون بات سمجھنے لگے اور عقل مند ہو جائے،کافر مسلمان ہو جائے ، فاسق توبہ کرلے تو ہر ایک کی شہادت قبول ہوگی کیونکہ گواہی کی قبولیت میں اب رکاوٹ نہیں رہی بشرطیکہ دیگر تمام شرائط بھی موجود ہوں۔ باپ ،دادا ،پردادا وغیرہ کے حق میں شہادت قبول نہ ہوگی جیسا کہ بیٹے، پوتے اور پڑپوتے کے حق میں شہادت قبول نہیں ہوتی کیونکہ اس صورت میں قوت قرابت کے سبب تہمت اور الزام لگنے کا اندیشہ موجود ہے۔ بھائی کی بھائی کے حق میں شہادت یا دوست کے حق میں شہادت قبول ہو گی کیونکہ دلائل شرعیہ میں عموم ہے۔ نیز یہ تہمت کا مقام نہیں ہے۔ خاوند اور بیوی کی ایک دوسرے کے حق میں شہادت قبول نہ ہوگی کیونکہ ہر ایک دوسرے کے مال سے استفادہ کرتا ہے۔ نیز دونوں میں ایک مضبوط تعلق ہونے کی وجہ سے ہر ایک پر جانبداری کا الزام لگ سکتا ہے، البتہ ان تمام رشتے داروں کی شہادت اس وقت قبول ہوگی جب ایک دوسرے کے خلاف گواہی دیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلّٰهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ " ’’(اے ایمان والو!) عدل وانصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودیٔ مولا کے لیے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ، گو کہ وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے رشتہ دار عزیزوں کے۔‘‘[1] لہذا اگر کسی نے اپنے باپ ،بیٹے، بیوی یا خاوند کے خلاف گواہی دی تو اسے قبول کیا جائے گا۔ جس شخص کو گواہی کے نتیجے میں فائدہ پہنچتا ہو یا وہ کسی نقصان سے محفوظ ہوتا ہو تو اس کی گواہی بھی قبول نہ ہو گی۔ اگر دو آدمیوں کی باہم گہری دشمنی ہے تو ایک کی دوسرے کے خلاف شہادت قبول نہ ہو گی کیونکہ ممکن ہے کوئی باطل شہادت کے ذریعے سے دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی بھی یہی رائے
[1] ۔النساء:4/135۔