کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 517
"وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ ""اور آپس میں دو عادل شخصوں کو گواہ بنا لو۔"[1] جمہور علماء کی رائے کے مطابق عدالت یہ ہے کہ مسلمان دین کے واجبات و مستحبات کا التزام واہتمام کرتا ہو اور محرمات اور مکروہات سے اجتناب کرتا ہو۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’فقہائے کرام اس پر متفق ہیں کہ جھوٹے کی گواہی رد کر دی جائے گی۔اور عدل کا معیار ہر زمانے، علاقے اور معاشرے (ماحول)کے اعتبار سے مختلف ہے۔ ہر قوم میں عادل کو گواہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر یہی آدمی کسی دوسرے علاقے میں ہوتو ان کے عدل کا معیار اور ہوگا، لہٰذا اسی طرح لوگوں میں فیصلہ کیا جائے گا۔ اگر گواہوں میں یہ شرط ضروری قرار دی جائے کہ وہ واجبات کی ادائیگی کرنے والے ہوں اور حرام کا ارتکاب کرنے والے نہ ہو۔ جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے تو گواہیاں ختم ہو جائیں یا مشکل ہو جائیں گی۔" نیز فرماتے ہیں:"جو صدق و سچائی کے ساتھ معروف ہوں تو ضرورت کے پیش نظر ان کی گواہی قبول کرنے کے لائق ہے، اگرچہ وہ حدود کی پابندی کرنے والے نہ ہوں، جیسے قید خانے میں ،دیہاتی حوادثات میں یا ایسی بستی میں جہاں کوئی عادل نہ ہو۔"[2] فقہائے کرام نے کہا ہے کہ عدالت میں دو شرطوں کا اعتبار ہوتا ہے: 1۔ ادائے فرض، یعنی پانچ فرض نمازوں اور جمعہ کے علاوہ سنن مؤکدہ کا اہتمام کرنا ،لہٰذا جو شخص سنن مؤکدہ اور وتر کا اہتمام نہیں کرتا اس کی شہادت قبول نہ ہو گی۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"جو آدمی سنن پر ہمیشگی نہ کرے وہ برا شخص ہے کیونکہ ان کے مسلسل ترک کی وجہ سے وہ سنت سے اعراض کرنے والا معیوب اور قابل ملامت ہے۔"جس طرح فرائض کی ادائیگی اس پر لازم ہے اسی طرح وہ محارم سے اجتناب کرے، یعنی کبیرہ گناہوں سے بچے اور صغیرہ گناہوں پر مداومت نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے پاک دامن مرد اور عورت پر زنا کا الزام لگانے والے کی شہادت کو مردودقراردیا ہے، لہٰذا کبیرہ گناہوں کے مرتکب شخص کو بھی اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ کبیرہ گناہ وہ ہے جس کی شرعی سزا دنیا میں مقرر ہے یا قرآن و حدیث میں بیان ہوا ہے کہ آخرت میں فلاں سزا ملے گی،مثلاً:سود خوری، جھوٹی گواہی دینا ،زنا کرنا ،چوری کرنا اور نشہ آور چیزوں کا استعمال کرنا وغیرہ ۔ یہ سب کبیرہ گناہ ہیں۔ اسی طرح فاسق شخص کی شہادت بھی قبول نہ ہوگی۔ 2۔ مروت اور شرافت: یعنی ایسے کام کرنا جو انسان کے لیے زینت و جمال کا باعث ہوں،مثلاً:سخاوت، حسن
[1] ۔الطلاق 65/2۔ [2] ۔منہاج السنۃ النبویۃ 1/62۔والفتاوی الکبری، الاختیارات العلمیۃ، الشہادات: 5/574۔