کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 516
عقل:مجنون ،پاگل کی شہادت قبول نہ ہوگی ،البتہ جس شخص کو پاگل پن یا مر گی کے دورے پڑتے ہوں، اس کی گواہی تب قبول ہوگی جب واقعے کو دیکھتے وقت یا گواہی دیتے وقت دورے کی حالت میں نہ ہو۔ کلام: گونگے شخص کی شہادت قبول نہ ہو گی اگرچہ اس کے اشارے سمجھ میں آبھی جائیں کیونکہ شہادت میں یقین پر اعتبار ہوتا ہے اور وہ اشاروں سے حاصل نہیں ہو تا، البتہ گونگے شخص کا اشارہ ان معاملات میں کفایت کرے گا جن کا تعلق اس کی ذات سے ہے،مثلاً:نکاح ،طلاق وغیرہ کیونکہ اس معاملے میں مجبوری ہے، البتہ اگر گونگا شخص تحریری صورت میں شہادت پیش کرے تو قابل اعتبار ہو گی کیونکہ تحریر زبان کے الفاظ پر دلالت کرتی ہے۔ اسلام: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ " "اور آپس میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ کر لو۔"[1] کافر کی گواہی صرف حالت سفر میں کی گئی وصیت پر قبول ہوگی بشرطیکہ وہاں کوئی مسلمان موجود نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ " "اے ایمان والو! اگر تم میں سے کسی کو موت آجائے تو وصیت کے وقت اپنے(مسلمانوں)میں سے دو صاحب عدل گواہ بنا لو اور اگر حالت سفر میں ہو اور تمھیں موت آلے تو غیر قوم کے بھی دو(غیر مسلموں کو) گواہ بنا سکتے ہو۔"[2] حافظہ:غیر عاقل اور کثرت سے نسیان کا شکار ہونے والے شخص کی شہادت قبول نہ ہو گی کیونکہ اس کے بیان سے نہ یقین حاصل ہوتا ہے نہ ظن غالب۔ اس کے غلط ہونے کا احتمال موجود ہوتا ہے،البتہ جسے کبھی کبھار نسیان واقع ہوتا ہو اس کی شہادت قبول ہوگی کیونکہ اس سے شاید ہی کوئی محفوظ ہو۔ عدالت:عدالت کے لغوی معنی "سیدھا اور درست ہونے"کے ہیں اور یہ ظلم وعدوان کی ضد ہے۔ اور شرعی معنی یہ ہیں کہ"آدمی کے دینی امور یکساں ودرست ہوں اور اس کے اقوال وافعال میں اعتدال ہو۔"گواہ میں وصف عدالت کی شرط کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنْ الشُّهَدَاءِ "جنھیں تم گواہوں میں سے پسند کر لو۔"[3] اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
[1] ۔الطلاق65/2۔ [2] ۔المائدہ:5/106۔ [3] ۔البقرۃ:5/282۔