کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 514
آیت کے معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:"اس سے مراد گواہی اٹھانا اور حاکم (قاضی) کے سامنے اسے ثابت کرنا ہے۔"اور لوگوں کے حقوق و معاہدات کا ثبوت اس کی ضرورت کا تقاضا کرتا ہے، لہٰذا گواہی اٹھانا اور د ینا اسی طرح فرض ہے جیسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہے۔ بوقت ضرورت ادائیگی شہادت اس شخص پر فرض عین ہے جس نے اس ذمے داری کو قبول کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ" "اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپالے وہ گناہ گار دل والا ہے۔"[1] آیت کے معنی ہیں کہ جب تمھیں گواہی کے قیام کے لیے بلایا جائے تو نہ اسے چھپاؤ اور نہ خیانت کرو۔ آیت کے الفاظ (آثِمٌ قَلْبُهُ) کے معنی"( فاجر قَلْبُهُ)یعنی اس کا دل گناہ گار ہے۔ اور یہ دلوں کے مسخ ہونے سے متعلق سخت وعید ہے۔ آیت میں دل کو خاص کیا ہے کیونکہ شہادت کا علم اسی جگہ ہوتا ہے۔ آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نے گواہی اٹھائی ہوئی ہےاس پر فرض ہے کہ وہ اسے ادا کرے۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" گواہی دینے کی ذمے داری اٹھانا اور اسے ادا کرنا ایک حق ہے جس کے ترک سے آدمی گناہ گار ہوتا ہے۔" نیز فرماتے ہیں: "قیاس کا تقاضا ہے کہ اگر گواہ کی گواہی چھپانے کی وجہ سے صاحب حق کو نقصان پہنچے تو گواہ کے ذمے تاوان ہوگا۔" گواہی کی ذمے داری اٹھانے اور اسے نبھانے والے کا یہ حق ہے کہ اسے کسی قسم کی تکلیف یا نقصان نہ پہنچایا جائے۔ اگر گواہ کو گواہی دینے کی صورت میں جانی یا مالی نقصان یا بے عزتی کا اندیشہ ہو تو اس پر گواہی دینا واجب نہیں۔ " اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ ""اور (یادرکھو کہ) نہ تو لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو۔"[2] نیز حدیث میں ہے: "لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ " "نہ نقصان پہنچاؤ اور نہ نقصان اٹھاؤ۔"[3] گواہ پر لازم ہے کہ وہ علم و یقین کی بنیاد پر گواہی دے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[1] ۔البقرۃ:2/283۔ [2] ۔البقرۃ:2/282۔ [3] ۔ سنن ابن ماجہ، الاحکام، باب من بنی فی حقہ مایضر بجارہ ،حدیث:2340۔