کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 513
میں ہوں تو ان پر عمل ہوگا۔ اگر خاوند اور بیوی کے درمیان گھر کے سامان کے بارے میں جھگڑا ہو جائے تو جو شے مرد کے لائق ہو وہ اسے ملے گی اور جو شے عورت کے استعمال کی ہو وہ عورت کو ملے گی اور جو شے دونوں کے استعمال کی ہو وہ دونوں میں برابر برابر حصوں میں تقسیم ہو گی۔ گواہی کا بیان شہادت (گواہی) مشاہدہ سے مشتق ہے، اس لیے شاہد (گواہ) وہ شخص ہوتا ہے جو اس چیز کے بارے میں خبر دیتا ہے جس کا اس نے مشاہدہ کیا ہوتا ہے اور جان گیا ہوتا ہے۔ ادائیگی شہادت کے وقت گواہ کا یہ کلمات کہنا:"میں گواہی دیتا ہوں۔"ضروری ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں علماء کی دورائے ہیں۔حنابلہ کا مؤقف یہی ہےکہ "شہادت " کے لفظ کہنے لازمی ہیں۔ ائمہ کی ایک جماعت کا موقف ہے کہ لفظ "شہادت "کہنا ضروری نہیں۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے دوسرے موقف کی تائید میں ایک روایت منقول ہے اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہما نے اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگرد رشید ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’گواہی میں کسی مخصوص الفاظ کا کہنا قرآن وسنت سے ثابت نہیں ہے اور نہ صحابہ کرام اور تابعین عظام سے منقول ہے، لہٰذا گواہی دینے والا کوئی بھی ایسے کلمات بول سکتا ہے جن سے گواہی کا مدعا حاصل ہوتا ہو۔ مثلاً: گواہ کہے کہ میں نے ایسا کام ہوتے دیکھا یا ایسی ایسی باتیں خود سنی تھیں ،وغیرہ۔‘‘[1] حقوق العباد میں گواہی کو نبھانے کی ذمے داری فرض کفایہ ہے، لہٰذا اگر اس قدرگواہ مل جائیں جو کفایت کر جائیں اور مقصد حاصل ہو جائے تو دوسرے لوگ گناہ گار نہ ہوں گے لیکن اگر کسی خاص شخص کے علاوہ گواہ موجود نہ ہوں تو اس کا گواہ بننا فرض عین ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا" "اور گواہوں کو چاہیے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں۔"[2] یعنی جب ان کو گواہ بننے کے لیے بلایا جائے تو ان پر حاضر ہونا ضروری ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ
[1] ۔الفتاوی الکبری، الاختیارات العلمیہ، ص:578 والطرق الحکمیہ لا بن القیم ،ص:387۔ [2] ۔البقرۃ:2/282۔