کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 504
اپنے مال میں سے کچھ حصے کی یا اس کے غلاموں میں سے کسی غلام کی وصیت کرنا جسے حق مہر وغیرہ بنایا جائے۔ دعوے کا واضح اور صریح ہونا ضروری ہے۔ دعوے میں یہ کافی نہ ہوگا کہ" فلاں کے پاس میری فلاں چیز ہے۔"بلکہ یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ میں اس کو لینے کا مطالبہ کرتا ہوں۔ اور جس شے کا دعوی کیا گیا ہے وہ موجود ہو، لہٰذا ایسے قرض کے مطالبے کا دعوی نہیں ہو سکتا جس کی ادائیگی کےلیے باہمی طے شدہ مدت ابھی باقی ہے کیونکہ مقرر وقت سے قبل اس کا مطالبہ کرنا درست نہیں اور نہ اس بنیاد پر مدعا علیہ پر کوئی پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ صحت دعوی کے لیے ایک شرط یہ ہے کہ اس کے جھوٹ ہونے کا واضح قرینہ نہ پایا جائے،مثلاً: کسی شخص کے خلاف کوئی دعوی کرے کہ اس فلاں شخص نے بیس سال قبل قتل کیا تھا یا چوری کی تھی، حالانکہ مدعا علیہ کی عمر بیس سال سے بھی کم ہو کیونکہ عقل اس دعوی کو سچ تسلیم نہیں کرتی ،اس لیے اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اگر کسی نے بیع یا اجارے کے کسی معاہدے کا دعوی کیا تو صحت دعوی کے لیے ضروری ہے کہ بیان میں ان شرائط کا تذکرہ بھی ہو جن کے تحت معاہدہ ہواتھا کیونکہ لوگ معاہدات میں مختلف شرائط عائد کردیتے ہیں اور بسااوقات کسی شرط کی وجہ سے قاضی کے نزدیک معاہدہ صحیح نہیں ہوتا۔ اگر کسی نے وراثت کے حصول کا دعوی کیا تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ وراثت کا سبب بیان کرے کیونکہ اسباب میراث متعدد ہیں۔[1]لہٰذا تعیین ضروری ہے۔ صحت دعوی کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز سے متعلق دعوی ہووہ متعین ہو،نیز وہ چیز اسی مجلس میں یا اس شہر میں موجود ہوتاکہ اس کے بارے میں کوئی مغالطہ نہ ہو۔اگر وہ شے(دوریا)غائب ہوتو اس کے اوصاف اور علامات کا تذکرہ ضروری ہے جس سے وہ دوسری اشیاء سے ممتاز ہو جائے۔ گواہ کے قابل قبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ نیک اور دیانتدارشخص ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ " "اور آپس میں دوعادل شخصوں کو گواہ کر لو۔"[2] اور فرمان الٰہی ہے: "مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنْ الشُّهَدَاءِ""جنھیں تم گواہوں میں سے پسند کر لو۔"[3] نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَيَّنُوا"
[1] ۔بنیادی اسباب میراث تین ہیں:نسب، نکاح اور ولاء ۔ہر ایک کی تفصیل وراثت کے ابواب میں گزر چکی ہے۔(صارم) [2] ۔الطلاق:65/2۔ [3] ۔البقرۃ:2/282۔