کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 498
بن جائے، لہٰذا حلم،علم کی زینت اور اس کا حسن و جمال ہے۔ جس کی ضد جذبات میں آنا ،جلد بازی کرنا اور عدم ثبات ہے۔ قاضی کو چاہیے کہ وہ حلم والا، ٹھنڈے مزاج کا حامل اور حوصلہ مند ہوتا کہ جلد بازی اور جوش کی وجہ سے اس سے ایسا کام سر زد نہ ہو جائے جو اس کے لائق نہ ہو۔ وہ فطین و فہیم ہو تاکہ کوئی فریق اسے دھوکہ نہ دے سکے، وہ عفیف ہو، پاک دامن ہو، یعنی خود کو حرام کاموں سے بچانے والا ہو، صاحب بصیرت ہو اور اپنے سے پہلے قاضیوں کے فیصلوں سے آگاہ ہو ۔ قاضی کی جگہ ومقام ،یعنی عدالت ممکن حد تک شہر کے وسط میں ہوتا کہ تمام اہل شہر اس کے پاس آسانی سے پہنچ سکیں۔ مسجد کو جائے عدالت بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں، چنانچہ خلفائے راشدین سیدنا عمر ، عثمان ، اور علی رضی اللہ عنہم مسجد ہی میں لوگوں کے درمیان فیصلے کیا کرتے تھے ۔ قاضی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ فریقین کے ساتھ بات چیت کے لہجے، الفاظ کے استعمال اور نشست گاہوں میں مساوات اور عدل و انصاف کا خیال رکھے۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ " قَضَى رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْخَصْمَيْنِ يَقْعُدَانِ بَيْنَ يَدَيِ الْحَاكِمِ " "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مدعی اور مدعا علیہ دونوں کو قاضی کے سامنے بٹھایا جائے۔"[1] قاضی پر واجب ہے کہ وہ دونوں فریقوں کے درمیان انھیں اپنے سامنے بٹھانے، ان کی طرف توجہ کرنے اور ان سے گفتگو کرنے میں عدل و انصاف کرے۔" امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو امتیازی جگہ پر بٹھانا یا اس پر زیادہ توجہ دینا یا ایک فریق کے استقبال کے لیے کھڑے ہونا یا اس سے مشورہ لینا منع ہے تاکہ یہ چیز دوسرے فریق کے لیے دل شکنی کا سبب نہ بنے، نیز اس کا اثر یہ بھی ہوگا کہ جس فریق کو کم تر سمجھا گیا ہے اس کے دلائل کو کمزور سمجھا جائے گا اور اس کی زبان لڑ کھڑائے گی۔ یہ کیفیت افسوسناک ہے۔" قاضی کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ کسی ایک فریق سے دوران مقدمہ میں سر گوشیاں کرے یا اسے مقدمہ جیتنے کے لیے دلائل سکھائے یا اس کی مہمانی کرے اور اسے دعوی کرنے کا طریقہ بتائے اور اس کے بارے میں کوئی سبق پڑھائے لیکن اگر مدعی دعوئے میں کوئی ضروری بات چھوڑدے تو قاضی اسے یاد د لا سکتا ہے۔ قاضی کو چاہیے کہ مشکل حالات میں مشورے کے لیے علمائے کرام سے تعاون لے۔ اگر مقدمے کی مکمل صورت حال سمجھ میں آجائے تو فیصلہ دے دے وگرنہ صورت حال واضح ہونے تک فیصلہ مؤخر رکھے۔ قاضی کے لیے حرام ہے کہ وہ غصے کی حالت میں فیصلہ دے کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] ۔(ضعیف) سنن ابی داؤد القضاء باب کیف یجلس الخصمان حدیث: 3588۔ومسند احمد: 4/4۔