کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 495
دین اسلام میں قضا کا حکم فرض کفایہ کا ہے کیونکہ اس کے بغیر لوگوں کا نظام قائم ہی نہیں رہتا ،چنانچہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" لوگوں کے لیے حاکم ہونا ناگزیر ہے تاکہ ان کے حقوق ضائع نہ ہوں۔"[1] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کرنے والے چند آدمیوں پر عارضی طور پر بھی لازم قراردیا کہ وہ دوران سفر میں اپنا امیر مقرر کریں۔ اس میں تنبیہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں قضا کا ہو نا لازمی اور ضروری ہے۔"[2] جو شخص قاضی بننے کا اہل ہو اس پر واجب ہے کہ حکومت کو اپنی خدمات پیش کرے، بشرطیکہ کوئی اور شخص نہ مل رہا ہو۔ جو بھی شخص اس ذمے داری کی قوت واہلیت رکھتا ہو اس کے لیے اس عہدے پر فائز ہونا عظیم اجر کا باعث ہے اور جو شخص اس کا حق ادا نہ کرے گا اس کے لیے انتہائی خطرناک امر ہے۔ مسلمانوں کے خلیفہ پر واجب ہے کہ حالات اور ضرورت کے مطابق قاضی مقرر کرے تاکہ لوگوں کے حقوق ضائع نہ ہوں۔ اور وہ اس منصب کے لیے ایسے آدمیوں کا انتخاب کرے جو علم و تقوے میں بہتر ہوں اور اگر باصلاحیت اشخاص کا علم نہ ہو تو لوگوں سے معلوم کرے اور پوچھ لے۔ قاضی کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان زیادہ ممکن حد تک عدل و انصاف سے فیصلے دے۔ خلیفہ کو چاہیے کہ بیت المال سے قاضی کی اس قدر تنخواہ مقرر کرے کہ وہ ضروریات زندگی کے حصول سے بے فکر ہو جائے۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم حکومت کے مناصب پر فائز حضرات کے لیے بیت المال سے اس قدر وظیفہ دیتے تھے جو انھیں ضروریات زندگی کے لیے کافی ہوتا تھا۔ قاضی کی اہلیت اور صلاحیت کا دارومدار مختلف اوقات و حالات پر منحصر ہے کیونکہ جس معاملے میں شریعت نے حد بندی نہیں کی اس کا دارومدار موجودہ احوال اور عرف ہی پر ہوتا ہے۔ اس دور میں مملکت سعودیہ کی وزارت عدل و انصاف نے ایسا نظام رائج کیا ہے کہ جس کے تحت قاضی اپنے ماتحت علاقوں میں اپنا کام کر رہے ہیں۔ اور ان کے اختیارات کا بھی تعین کر دیا گیا ہے، لہٰذا ان اصول وضوابط کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کیونکہ اس میں معاملات کی اصلاح اور اختیارات کا تعین ہے، لہٰذا وہ نظام کتاب و سنت کا مخالف نہیں ہے ،اس لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ایک قاضی کا حتی الامکان نوصفات سے متصف ہونا ضروری ہے جو درج ذیل ہیں: 1۔ مکلف ،یعنی عاقل و بالغ ہو کیونکہ غیر مکلف خود کسی کی سر پرستی میں ہوتا ہے، لہٰذا وہ حاکم بننے کا اہل نہیں۔
[1] ۔المغنی والشرح الکبیر:11/374۔ [2] ۔الفتاوی الکبری الاختیارات العلمیہ باب القضاء5/555