کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 489
نذر عبادات کی اقسام میں سے ایک قسم ہے، لہٰذا غیر اللہ کے لیے نذر ماننا جائز نہیں۔ جس شخص نے غیر اللہ کے لیے، مثلاً: کسی قبر ،فرشتے، نبی ،ولی کے لیے نذر مانی تو اس نے شرک کی ایسی قسم کا ارتکاب کیا جو دین اسلام سے خارج کرنے والی ہے کیونکہ اس نے غیر اللہ کی عبادت کی ہے جو لوگ اولیاء صالحین کی قبروں کے نام پر کچھ دینے کی نذر مانتے ہیں شرک اکبر کے مرتکب ہوتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ توبہ کریں اور اس کبیرہ گنا سے بچیں اور اپنی قوم کو ڈرائیں تاکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے غضب اور جہنم سے بچ جائیں۔ نذر کا اصل حکم یہ ہے کہ وہ مکروہ ہے بلکہ علمائے کرام کی ایک جماعت نے اسے حرام قراردیا ہے۔ ان کی دلیل سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ: "نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ النَّذْرِ وَقَالَ إِنَّهُ لَا يَرُدُّ شَيْئًا وَلَكِنَّهُ يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنْ الْبَخِيلِ " ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر ماننے سے منع کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نذر تقدیر کو نہیں بدلتی، البتہ اس کے ذریعے سے بخیل شخص سے کچھ مال نکلوالیا جاتا ہے۔‘‘[1] مکروہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نذر ماننے والا اپنے آپ پر ایک ایسی شے لازم کر لیتا ہے جو شرع میں اس پر لازم نہ تھی ۔ اس بنا پر وہ خود کو مشکل میں ڈالتا ہے جبکہ ایک مسلمان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ نیکی کاکام بغیر نذر مانے ہی کرے۔ نذر مان لینے کی صورت میں اسے پورا کرنا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُهُ " ’’تم جتنا کچھ خرچ کرو ،یعنی خیرات کرو اور جو کچھ تم نذر مانو تو بے شک اسے اللہ بخوبی جانتا ہے۔‘‘[2] اللہ تعالیٰ نے نذر پوری کرنے والوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: "يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا" ’’جو نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے۔‘‘ [3] اور فرمایا: "وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ ""اور انھیں چاہیے کہ وہ اپنی نذریں پوری کریں۔"[4] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
[1] ۔صحیح البخاری ،القدر، باب القاء العبد النذر الی القدر ،حدیث6608وصحیح مسلم، النذر، باب النھی عن النذرو انہ لا یرد شیئا، حدیث 1639۔ 1640۔ [2] ۔البقرۃ:2/270۔ [3] ۔الدھر76/7۔ [4] ۔الحج 22/29۔