کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 484
سے فرمایا ہے: "يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللّٰهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١﴾ قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ " "اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ (کیا) آپ اپنی بیویوں کی رضا مندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا ،رحم کرنے والا ہے۔ اللہ نے آپ کے لیے آپ کی (ناجائز) قسمیں کھولنا فرض کر دیا ہے۔"[1] اگر کسی نے بیوی کو اپنے آپ پر حرام قراردے دیا تو شرعی اصطلاح میں "یہ ظہار" ہے ۔ اس میں ظہار کا کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ قسم کا کفارہ کافی نہ ہو گا۔[2] اس مسئلے میں یہ تنبیہ کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام کے سوا کسی اور ملت کی قسم نہ اٹھائی جائے، مثلاً: اگر کسی مسلمان نے کہا: "اگر اس نے فلاں کام کیا تو وہ یہودی ہو گا یا نصرانی ہوگا۔"یا" فلاں کام نہ کیا تو یہودی یا نصرانی ہو گا ۔"ایسے الفاظ نہایت ناپسندیدہ اور شدید حرام ہیں۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " مَنْ حَلَفَ عَلَى مِلَّةٍ غَيْرِ الْإِسْلَامِ كَاذِبًا مُتَعَمِّدًا فَهُوَ كَمَا قَالَ " ’’جس نے اسلام کے سواکسی اور ملت پر جان بوجھ کر جھوٹی قسم اٹھائی تووہ ویسا ہی بن جائے گا جیسا اس نے کہا ہے۔‘‘[3] ایک اور روایت میں ہے: "مَنْ حَلَفَ فَقَالَ : إِنِّي بَرِيءٌ مِنْ الْإِسْلَامِ فَإِنْ كَانَ كَاذِبًا فَهُوَ كَمَا قَالَ ، وَإِنْ كَانَ صَادِقًا فَلَنْ يَرْجِعَ إِلَى الْإِسْلَامِ سَالِمًا" "جس نے قسم اٹھائی اور کہا کہ وہ اسلام سے الگ تھلگ ہو گیا تو اگر وہ جھوٹا ہے تو وہ ویسا ہی ہو گیا جیساکہ اس نے کہا اور اگر وہ سچا ہے تو اسلام کی جانب صحیح سالم واپس نہ لوٹےگا۔"[4] اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس قسم کی بری باتوں سے محفوظ فرمائے اور ہمارے اقوال وافعال اور نیتوں کو
[1] ۔التحریم 66۔21۔ [2] ۔ظہار اور اس کے کفارے کی بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ [3] ۔صحیح البخاری، الجنائز ،باب ماجاء فی قاتل النفس ،حدیث 1363۔وصحیح مسلم، الایمان، باب بیان غلظ تحریم قتل الانسان نفسہ۔۔۔، حدیث: 110۔ [4] ۔سنن ابی داود، الایمان والنذور، باب ماجاء فی الحلف بالبراءۃ۔۔۔۔۔،حدیث 3257۔