کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 483
کہہ دیا تو اس کا فائدہ ہو گا ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" یہی بات درست ہے۔" قسم کوتوڑنا کبھی واجب ہوتا ہے ،کبھی حرام اور کبھی مباح۔ 1۔ اگر کسی نے واجب کام چھوڑ دینے کی قسم اٹھائی تو اس پر قسم توڑدینا اور کفارہ ادا کرنا واجب ہے، مثلاً:اگر قسم اٹھائی کہ وہ صلہ رحمی نہ کرے گا یا حرام کام کا ارتکاب کرےگا ،مثلاً: شراب پیے گا تو اس پر واجب ہے کہ قسم کو توڑدے اور کفارہ ادا کرے ۔ 2۔ کبھی قسم کو توڑنا حرام ہوتا ہے، مثلاً: کسی نے قسم اٹھائی کہ وہ فلاں حرام کام نہیں کرے گا یافلاں فرض ادا کرے گاتو اس پر واجب ہے کہ قسم پوری کرے، اسے توڑنا جائز نہ ہوگا۔ 3۔ اگر کسی نے کوئی مباح کام کرنے یا چھوڑنے کی قسم اٹھائی تو اس میں قسم کا توڑنا مباح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَيْتُ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَكَفَّرْتُ عَنْ يَمِينِي" "اگر میں کسی کام پر قسم اٹھالو لیکن اس کے غیر میں بہتری ہوتو میں بہتر کام ہی کروں گا اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کروں گا۔"[1] نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غيْرَهَا خَيْراً مِنْهَا، فَلْيَأتِ الّذِي هُوَ خَيْرٌ، وَلْيُكَفرْ عَنْ يَمِينِهِ " "جس شخص نے کسی کام پر قسم اٹھائی لیکن وہ سمجھتا ہےکہ خیر و بھلائی دوسری صورت میں ہے تو وہ خیر والی صورت اختیار کرے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔"[2] اگر کسی شخص نے بیوی کے سوا کسی اور مباح شے کو اپنی ذات پر حرام قراردے دیا، مثلاً: کھانا پینا یا لباس کا پہننا ،جیسے کسی نے کہا:اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جو حلال قراردیا ہے وہ حرام ہے۔ یہ فلاں شے کھانا مجھ پر حرام ہے تو وہ شے حرام نہ ہوگی ۔ اسے چاہیے کہ وہ اس شے کو استعمال میں لائے اور اپنی قسم کا کفارہ دے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
[1] ۔صحیح البخاری الایمان والنذور باب قول اللّٰه تعالیٰ:(لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ)(المائدہ 5/89۔)حدیث :6621،وصحیح مسلم الایمان باب ندب من حلف یمینا فرای غیرھا خیراً منہا۔ حدیث 1649۔ [2] ۔صحیح مسلم، الایمان ،باب ندب من حلف یمینا فرای غیرھا خیراً منہا۔ حدیث 1650۔