کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 474
"أَمَرَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِّ الشِّفَارِ ، وَأَنْ تُوَارَى عَنِ الْبَهَائِمِ" "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاہے کہ چھری کو تیز کیا جائے اور اسے جانوروں سے چھپا کررکھا جائے۔"[1] 3۔یہ امربھی مکروہ ہے کہ جانور کا رخ قبلہ کی جانب نہ ہو۔ 4۔جانور کے ٹھنڈا ہونے سے پہلے ہی اس کی گردن(منکا) توڑنا یا کھال اتارنا مکروہ ہے۔ (4)۔مسنون یہ ہے کہ اونٹ کو نحر کے وقت کھڑا کیا جائے اس کا اگلا بایاں پاؤں باندھ دیاجائے۔گائے یا بکری کو بائیں جانب لٹا کرذبح کیا جائے۔ شکار کے احکام "صيد"(شکار کرنا) کا مطلب ہے حلال جانور کو شکار کرنا جو طبعی طور پر انسان سے مانوس نہیں ہوتا اور پکڑا نہیں جاتا۔ایسے جانور کو بھی صيد یعنی شکار کہتے ہیں۔ اگر شکار انسانی ضرورت کے پیش نظر ہوتو بلا کراہت جائز ہے اور اگر ضرورت کی بجائے محض کھیل اور شغل کی خاطر ہوتو مکروہ ہے اوراگر شکار کے سبب لوگوں کے کھیتوں ،فصلوں اور اموال کا نقصان ہوتو حرام ہے۔ (1)۔مذکورہ پہلی صورت میں شکار کرنے کے جوازمیں دلیل اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: "وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا" "ہاں! جب تم احرام اتار ڈالو تو شکار کھیل سکتے ہو۔"[2] اور ارشاد ہے: " وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ " " اور ان شکاری جانوروں کاکیاہوا شکار(حلال ہے ) جنہیں تم سدھا لیتےہ و۔ اور اللہ نےتمہیں جوسکھایا ہے اس کے مطابق تم انہیں سکھاتے ہو،چنانچہ وہ جس شکار کو تمہاےر لیے پکر رکھیں ، اس پر اللہ کا نام پڑھو اور اس میں سے کھا لو ۔"[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] ۔سنن ابن ماجہ الذبائح، باب اذا ذبحتم فاحسنوا الذبح، حدیث 3172۔ومسند احمد 2/108۔ [2] ۔المائدۃ:5/2۔ [3] ۔ المائدۃ:5/4۔