کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 470
"حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ " "تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو لیکن اگر اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں ۔" [1] یعنی جسے تم زندہ پالو،پھر اسے ذبح کرکے اس کا مکمل خون بہادو۔بعد میں یہ لفظ عام ذبح کے لیے استعمال ہونے لگا،اس کو پہلے سے کوئی چوٹ لگی ہو یا نہ لگی ہو۔ (1)۔جانور کو ذبح کرنا ضروری (واجب) ہے ورنہ اس کے بغیر اس جانور کا گوشت کھاناحلال نہ ہوگا کیونکہ غیر مذبوح جانور مردارمتصور ہوتاہے۔اہل علم کا اجماع ہے کہ مردار کا کھانا حرام ہے الا یہ کہ کوئی اضطراری صورت ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ" البتہ مچھلی،ٹڈی دل اورہر وہ جانور جو پانی ہی میں زندگی گزارتا ہے ان کو ذبح کیے بغیر ہی کھانا جائز ہے۔کیونکہ پانی(سمندر) کامرا ہوا بھی حلال قراردیا گیا جیسا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہماکی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "أُحِلَّتْ لَنا مَيْتَتَانِ وَدَمَانِ فَأَمَّا الْمَيْتَتَانِ فَالْحُوتُ وَالْجَرَادُ ، وَأَمَّا الدَّمَانِ فَالْكَبِدُ وَالطِّحَالُ " "ہمارے لیے دو قسم کے مرد ار اور دو قسم کے خون حلال ہیں،دومردار:مچھلی اورٹڈی دل ہیں اور دو خون:جگر اورتلی ہیں۔"[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندر کے بارے میں فرمایا: "هُوَ الطُّهُورُ مَاؤُهُ، اَلْحِلُّ مَيْتَتُهُ" "اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔"[3] (2)۔ذبح کی چارشرائط ہیں جو درج ذیل ہیں: 1۔ذبح کرنے والا عاقل اور مسلمان ہو یا اہل کتاب میں سے ہو،لہذا مجنون،نشےمیں مدہوش اور چھوٹےغیر ممیز بچے کاذبح کردہ جانور حلال نہ ہوگا کیونکہ ان افراد میں عدم عقل کی وجہ سے ذبح کی نیت اور قصد نہیں ہوتا۔۔۔اسی طرح کافر،بت پرست،مجوسی یامرتد کا ذبح کردہ جانور حلال نہیں۔علاوہ ازیں قبر پرست لوگ جو مردوں سے مدد مانگتے
[1] ۔المائدۃ 5/3۔ [2] ۔سنن ابن ماجہ الاطعمۃ باب الکبد والطحال حدیث 3314ومسند احمد 2/97۔ [3] ۔سنن ابی داود الطھارۃ باب الوضوء بماء البحر حدیث 83 ومسند احمد 2/361۔