کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 429
موجود ہوگا اور وہ حد قذف لگانے کا مطالبہ کرے گا یا یہ ثابت ہوجائے کہ اس نے اپنی غیر حاضری کے باوجود قاذف کی سزا کا مطالبہ کیا ہے۔ (6)۔قذف کے الفاظ کی دو قسمیں ہیں: 1۔واضح الفاظ جو صرف قذف ہی پر دلالت کرتے ہیں۔اس میں قاذف سے وضاحت طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی،جیسے کسی کوکہا جائے:"اےزانی! اے قوم لوط کا فعل کرنے والے! 2۔کنایے کے الفاظ جس میں قذف کے علاوہ دوسرے فعل کا بھی امکان ہو۔قاذف اپنے الفاظ کی جو وضاحت کرے گا وہی قبول ہوگی،جیسے کسی کو اے طوائف! ،فاجرہ عورت! اے خبیث عورت! وغیرہ کہہ کر پکارنا۔ان الفاظ کو استعمال کرنے والے سے وضاحت طلب کی جائے گی۔اگر وہ کہے کہ طوائف سے میری مراد وہ عورت ہے جو نافرمانی کے لیے بناؤ سنگھار کرتی ہے ،فاجرہ سے میری مراد خاوند کی نافرمان ہے اور خبیثہ سے میری مراد بری طبیعت والی ہے تو قاذف کی یہ وضاحت قبول کی جائےگی،محض الفاظ بولنے سے قذف کی حد نہیں لگے گی کیونکہ شکوک وشبہات ہوں تو حد نہیں لگائی جاتی۔ (7)۔اگرکسی نے ایک گروہ پر یا اہل شہر پر زنا کاالزام لگایا تو اس پر حد قذف جاری نہ ہوگی بلکہ اس کےلیے تعزیر ہوگی کیونکہ اس نے قطعاً جھوٹ سے کام لیا ہے۔ایسے ہی غلط الفاظ استعمال کرنے اورغلیظ گالی دینے کی وجہ سے اس پر تعزیر ہوگی اگرچہ مقذوف کامطالبہ نہ بھی ہو کیونکہ یہ معصیت ہے جس میں تادیب لازم ہے۔ (8)۔ جس نے کسی نبی پر زنا کا بہتان لگایا تو اس نے کفر کا ارتکاب کیاکیونکہ اگر وہ مسلمان تھا تو وہ مرتد ہوگیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں پر قذف درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قذف ہے۔ایسا قاذف مرتد کے حکم میں ہے۔" آگے چل کر شیخ موصوف فرماتے ہیں:" اگر قاذف رجوع کرلے اورمعافی مانگ لے اور مقذوف کوابھی خبر نہ ہوتو سوال یہ ہے کہ اس کارجوع قبول ہوگا یا نہیں؟تو اس کاجواب یہ ہے کہ اس معاملے میں مختلف افراد کا حکم مختلف ہے۔اکثریت کی رائے ہے کہ مقذوف کو خبر ہوجائے تو رجوع درست نہیں وگرنہ صحیح ہوگا ،البتہ قاذف مقذوف کے حق میں زیادہ سے زیادہ دعا واستغفار کرے۔" اس مضمون سے واضح ہواکہ زبان کے بہت خطرات ہیں اور زبان پر جاری ہونےو الے الفاظ قابل مؤاخذہ ہوتے ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: