کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 428
بالغ،بلاجبرواکراہ کسی پاک دامن شخص پر زنا یا قوم لوط کے عمل کاالزام لگادے گا اور وہ اس میں جھوٹا ثابت ہواتواس کے بدن پر اسی کوڑے مارے جائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے: "وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً " "جولوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں،پھر چار گواہ نہ پیش کرسکیں تو انھیں اسی(80) کوڑے لگاؤ۔"[1] واضح رہے جس شخص پر الزام لگایا جائے وہ مرد ہو یا عورت دونوں صورتوں میں جرم یکساں ہے۔آیت میں عورتوں کی جو تخصیص کی گئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ آیت جس واقعے کے بارے میں نازل ہوئی ہے وہ عورت پر الزام لگانے سے متعلق تھا،نیز اس لیے کہ عورتوں پرالزام لگانا نہایت قبیح وشنیع فعل ہے۔ (2)۔قاذف،یعنی الزام لگانے والے کو سخت سزا کا مستحق اسی لیے قرار دیا گیا تاکہ مسلمانوں کی عزت کو رزیل لوگوں کے ہاتھوں پامال ہونے سے بچایا جاسکے اور زبانوں کو ایسے گندے الفاظ بولنے سے محفوظ رکھا جائے جوپاکباز ،مبرا لوگوں کی بے عزتی کردیتے ہیں،نیز اسلامی معاشرے کو بے حیائی اور بُرائی کے جراثیم کے پھیلنے سے بچایا جاسکے۔ (3)۔حد قذف اس شخص پر جاری اورنافذ ہوگی جو ایسے شخص پر تہمت لگائے جو آزاد،مسلمان ،عاقل،پاک دامن اور بالغ یاقریب البلوغ ہو اور وہ جماع کرسکتا ہو۔ امام ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" اہل علم کااتفاق ہے کہ جس پرتہمت لگائی گئی ہے اس میں پانچ اوصاف جمع ہوں تب الزام لگانے والے پر حد لگائی جائے گی۔بلوغت،آزادی،عفت،اسلام اور وہ جسمانی طور پر جماع کی قدرت رکھتا ہو۔اگر اس میں مذکورہ اوصاف میں سے ایک وصف بھی کم ہو توقاذف پر حد جاری نہ ہوگی۔"[2] (4)۔"حد قذف" مقذوف(جس پر الزام لگایا گیاہو) کا حق ہے اور وہ معاف کردے تو حد قذف نافذ نہ ہوگی،لہذا"حد قذف" کانفاذ مقذوف کے مطالبے ہی پر ہوگا۔اگر مقذوف قاذف کو معاف کردیتا ہے تو حد جاری نہ ہوگی،البتہ اس کے لیے تعزیر ضرور ہے تاکہ وہ دوبارہ ایسا جرم نہ کرے جو کہ نہ صرف حرام ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نےاس پر اپنی لعنت اور دردناک عذاب کی دھمکی بھی دی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" قاذف پر حد اسی وقت لگائی جائے گی جب مقذوف کا مطالبہ ہوگا۔"[3] اس پر اہل علم کا اجماع ہے۔ (5)۔جس نے کسی غیر حاضر(غائب) شخص پر زنا کاالزام لگادیا تو قاذف پر حد تب نافذ ہوگی جب مقذوف موقع پر
[1] ۔النور24/4۔ [2] ۔بدایۃ المجتھد: 2/783۔ [3] ۔مجموع الفتاویٰ 34/185۔