کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 422
آزاد عورتوں کی ہے۔"[1] ایسےمعاملات میں غلام اور لونڈی میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔قرآن میں جس سزا کا ذکر ہے وہ کوڑوں کی سزا ہے اگرچہ رجم کی سزا بھی قرآن میں مذکور تھی مگر اس کے لفظ منسوخ ہیں اور حکم موجود ہے۔ (13)۔زانی غلام کو جلاوطنی کی سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ اس میں اس کے مالک کا نقصان ہے،نیز اس کے بارے میں کوئی شرعی نص بھی وارد نہیں ہوئی،حالانکہ لونڈی کے بارے میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نےفرمایا: "إِذَا زَنَتْ ، فَاجْلِدُوهَا ثُمَّ إِنْ زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا" "جب زنا کا ارتکاب کرے تو اسے کوڑے مارو،اگرپھر زنا کرے تو پھر کوڑے مارو۔"[2] اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلاوطنی کا تذکرہ نہیں کیا۔ (14)۔وطی یا زنا میں شک وشبہ ہوتو ملزم پر حد لگانا واجب نہ ہوگا کیونکہ فرمان نبوی ہے: "ادْرَءُوا الْحُدُودَ عَنْ الْمُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ" "(شکوک وشبہات ہوں تو) حسب طاقت مسلمانوں پر حدود جاری نہ کرو۔"[3] مثلاً:ایک شخص کسی عورت کو اپنی بیوی گمان کرکے صحبت کربیٹھتا ہے یا اس نے کسی ایسے عقد ومعاہدے کے ساتھ وطی کی جسے وہ جائز سمجھتا تھا،حالانکہ وہ ناجائزتھا یا اس نے ایسے نکاح کے بعد وطی کی جو نکاح مختلف فیہ تھا یا کوئی شخص زنا کی حرمت سے ناواقف تھا،مثلاً : وہ نومسلم تھا یا درالاسلام سے دور وہ کسی ایسی بستی میں رہتا تھا جہاں اسے زنا کی حرمت کا علم نہ ہوسکا یا کسی عورت کے ساتھ زبردستی زنا کیاگیا تو اس پر حد نافذ نہ ہوگی۔ ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" ہمارے علم کے مطابق تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ شکوک وشبہات کی موجودگی میں حد جاری نہ ہوگی۔" یہ شریعت اسلامی کی طرف سے سہولت وآسانی دی گئی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ شبہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ کسی سے جرم سرزد ہونے میں اس کا قصد وارادہ شامل نہ تھا۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: "وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُورًا رَحِيمًا"
[1] ۔النساء 4/25۔ [2] ۔صحیح البخاری، البیوع باب بیع العبد الزانی ،حدیث 2153۔ [3] ۔(الضعیف) جامع الترمذی، الحدود، باب ماجاء فی درء الحدود ،حدیث 1424 وسنن ابن ماجہ، الحدود ،باب الستر علی المومن ودفع الحدود بالشبھات ،حدیث 2545۔