کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 420
علاوہ ہر زمانے میں تمام علماء کا اس مسئلے میں اتفاق رہاہے۔ (5)۔رجم کی سزارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی ایک احادیث متواترہ سے ثابت ہے جو قولی اورفعلی دونوں قسم کی ہیں۔ (6)۔رجم کاحکم قرآن مجید میں مذکورہ تھا،پھراس کے الفاظ منسوخ ہوگئے اور حکم باقی ہے۔کلمات قرآن یہ تھے: "الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَا زَنَيَا فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ نَكَالًا مِنَ اللّٰهِ وَاللّٰهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ" "شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت جب زنا کریں تو ان دونوں کو سنگسار کردو، یہ اللہ کی طرف سے سزا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔"[1] (7)۔جب یہ ثابت ہوچکاہے کہ رجم کی آیت قرآن مجید میں موجود تھی،پھر اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی لیکن اس کا حکم ابھی باقی ہے،نیز سنت متواترہ اور اجماع سے بھی رجم ثابت ہے تو اب اس کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں رہی،البتہ خوارج کا گروہ اور ان کے موجودہ دور کے ہم خیال مصنفین اپنی خواہشات کے پجاری بن کر رجم کا انکار کررہے ہیں اور دلائل شرعیہ اور اجماع امت کو رد کررہے ہیں۔ (8)۔شادی شدہ شخص جس کو زنا کے ارتکاب کی وجہ سے سنگسار کیا جائے گا،اس سے مراد وہ شادی شدہ ہے جس نے اپنی بیوی سے صحیح،شرعی نکاح کے ساتھ جماع کیا ہو،اس کی بیوی خواہ مسلمہ ہو یا کتابیہ اور دونوں میاں بیوی عاقل،بالغ اور آزاد ہوں۔اگر ایک شرط بھی نہ ہوئی تو انھیں (میاں بیوی کو محصن) شادی شدہ نہیں کہیں گے۔شرائط درج ذیل ہیں: 1۔وطی فرج میں کی گئی ہو۔ 2۔شرعی نکاح کے بعد وطی کی گئی ہو۔ 3۔دونوں کامل ہوںِ ،یعنی مرد اور عورت دونوں عاقل ،بالغ اور آزاد ہوں۔ (9)۔شادی شدہ کے ساتھ رجم کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ شادی ہوجانے کے بعد اس کو معلوم تھا کہ حرام شرم گاہوں سے کس طرح بچا جاسکتا ہے جبکہ شادی شدہ حرام کے ارتکاب سے مستغنی ہوتا ہے اور اپنے آپ کو زنا کی سزا سے دور رکھ سکتا ہے ،لہذا جمیع وجوہ سے اس کا عذر جاتا رہا اور بیوی کی صورت میں(اللہ کی نعمت) اس پرکامل ہوچکی ہے تو جس کی نعمت جس قدر عظیم ہوگی اسی قدر اس کاجرم بھی زیادہ گھناؤنا ہوگا تو پھر سزا بھی سخت ہوگی۔
[1] ۔سنن ابن ماجہ، الحدود، باب الرجم ،حدیث 2553 البتہ "نَكَالًا مِنَ اللّٰهِ وَاللّٰهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ" کے لیے دیکھیے:مسند احمد 5/132۔