کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 419
طرح اہل ایمان کی ایک جماعت کا وہاں حاضر ہونا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: "وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ " "ان دونوں کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے۔"[1] زنا ایک بڑا جرم ہے جس کا گناہ اور قباحت وشناعت بعض صورتوں میں مزید بڑھ جاتی ہے،مثلاً:خاوند والی عورت سے زنا کرنا یا محرم عورت سے زناکرنا یاپڑوسی کی بیوی سے زنا کا ارتکاب کرنا،یہ بڑے قبیح گناہوں میں سے ہے۔ (1)۔زنا بڑے بڑے جرائم اورمعاصی میں شامل ہے کیونکہ اس سے اس نسب کا اختلاط ہوجاتاہے جس کے سبب سے انسان کاتعارف ہوتا ہے اورجائز امور میں دوسروں کی مدد کرتا اور مدد لیتا ہے،نیز اس میں کھیتی اور نسل کی تباہی ہے۔انھی قبیح نتائج کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے زنا کی زبردست سزا مقرر کی ہے اور وہ یہ ہے کہ زنا کرنے والا اگر شادی شدہ ہوتو اسے سنگسار کیا جائے اور اگر وہ کنوارہ ہوتو اسے سو کوڑے مارے جائیں،نیز کنوارے مردکو ایک سال کے لیے جلاوطن بھی کیا جائے گا۔علاوہ ازیں ا س سے ایسے امراض پیدا ہوتے ہیں جو معاشرے کوتباہ کردیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ شارع علیہ السلام نے اس سے رک جانے کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: "وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا" "خبردار! زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے۔"[2] یہی وجہ ہے کہ اس کی مذکورہ بالا سخت سزا مقرر فرمائی ہے۔ (3)۔فقہائے کرام نے زنا کی تعریف یوں کی ہےکہ"فرج یاد دبر میں بدکاری کاارتکاب زنا کہلاتا ہے۔" ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" زنا ہر اس وطی کو کہا جاتا ہے جس میں نکاح یا شبہ نکاح[3] نہ ہو یا ملک یمین(لونڈی) کا تعلق نہ ہو۔اس تعریف پر علمائے کرام کا اتفاق ہے،البتہ اس کے بارے میں اختلاف ہے کہ کس چیز کو شبہ قرار دےکر حد سےبری کردیا جائے۔"[4] (4)۔اگرزانی شادی شدہ عاقل وبالغ ہےتواسے سنگسار کیا جائے گا حتیٰ کہ مرجائے،خواہ مرد ہو یا عورت۔خوارج کے
[1] ۔النور 24/2۔ [2] ۔بنی اسرائیل 17/32۔ [3] ۔مثلاً:اس انداز سے نکاح کیا کہ اس میں لازمی شرائط موجود نہ تھیں یا لا علمی کی وجہ سے اس عورت سے نکاح کرلیاجس سے نکاح کرناجائز نہ تھا۔(صارم) [4] ۔بدایۃ المجتھد 2/769۔