کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 405
ہڈی ٹوٹ جانے کی صورت میں دیت کی تفصیل درج ذیل ہے: 1۔ اگر کسی نے ایک شخص کی پسلی کی ہڈی توڑ دی جو علاج کے بعد صحیح طور پر جڑ گئی تو اس میں ایک اونٹ دیت ہے۔اسی طرح ہنسلی کی ہر ہڈی میں دیت ایک ایک اونٹ ہے کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَضَى۔۔۔۔ فِي التَّرْقُوَةِ بِجَمَلٍ , وَفِي الضِّلْعِ بِجَمَلٍ"  انھوں نے ہنسلی کی ہڈی اور پسلی کی ہڈی میں ایک ایک اونٹ دیت کا فیصلہ فرمایا۔"[1] 2۔ کلائی کی ہڈی توڑنے کی صورت میں اگر وہ صحیح جڑ جائے تو اس کی دیت دو اونٹ ہے۔کلائی کی ہڈی سے مراد وہ ہے جو ہاتھ سے لے کر کہنی تک ہوتی ہے۔ایسے ہی ران،پنڈلی اور گٹے(ہاتھ یا پاؤں کے جوڑ) کی ہڈی توڑنے میں دواونٹ دیت ہے۔ سیدنا عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر بن خطاب کو لکھا کہ ایک شخص نے کسی کے بازو کی ایک ہڈی توڑدی تواس میں کتنی دیت ہے؟سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ ایک شخص نے کسی کے بازو کی ایک ہڈی توڑ دی تو اس میں کتنی دیت ہے؟سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اس میں دو اونٹ ہیں۔اور اگر بازو کی دونوں ہڈیاں ٹوٹ جائیں تو اس میں چار اونٹ ہیں۔[2]اس مسئلے میں کسی صحابی نے ان کی مخالفت نہیں کی۔ (2)۔یہ ان زخموں اور ہڈیوں کو توڑنے اور ان کی دیت کا بیان تھا جن کا ذکر شریعت میں وارد ہواہے اورجو اس کے علاوہ ہڈی ٹوٹنے یازخم آنے کی صورتیں ہیں ان میں "حکومہ" ہے،مثلاً:ریڑھ کی ہڈی کے مہرے اور پیڑو(ناف کے نیچے) کی ہڈی میں۔ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"درست بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ پسلی،ہنسلی کی ہڈیوں اور بازو کی دونوں ہڈیوں کے سوا دیگر زخموں میں دیت کی تعیین نہیں کیونکہ تعیین کسی شرعی دلیل سے ثابت ہوتی ہے اور دلیل کا تقاضا ہے کہ ان باطنی ہڈیوں کے زخموں میں"حکومہ" واجب ہو( سوائے پانچ کے) ان میں "حکومہ" اس لیے نہیں ہے کہ ان کی بابت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کافیصلہ موجود ہے ،البتہ ان کے سوا دیگر باطنی زخموں کی تعیین زخم کی کیفیت کے مطابق اجتہاد سے کی جائے گی۔"[3]
[1] ۔الموطا للامام مالک، العقول، باب جامع عقل الاسنان ،حدیث 1654۔اگر پسلی یا ہنسلی کی ہڈی ٹیڑھی جڑ گئی تواس میں حکومہ ہے۔"حکومہ" کی وضاحت پیچھے گزر چکی ہے۔ [2] ۔(ضعیف) منارالسبیل،ص 665۔المصنف لابن ابی شیبۃ الدیات باب الزند یکسر 5/436 حدیث 27770 وارواء الغلیل 7/328 حدیث 2292۔ [3] ۔ المغنی والشرح الکبیر 9/657۔