کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 402
وغیرہ جو ہر عضو کاایک مخصوص مقصد اورفائدہ ہے۔ (7)۔انھی منافع میں سے حواس اربعہ،مثلاً:سننا،دیکھنا،سونگھنا اور چکھنا ہیں،چنانچہ مذکورہ چاروں حواس میں سے کوئی ایک حس جنایت کے سبب ختم کردی جائے تو اس میں کامل دیت ہے۔ ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"عام اہل علم کا ا جماع ہے کہ سماعت(کان) کے ضائع ہوجانے سے دیت ادا کی جائے گی۔"[1] امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے۔[2]سیدنا عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے مکتوب میں ہے: "وَفِي الْمَشَامِّ الدِّيَةُ " "سونگھنے کی قوت ضائع کردینے کی صورت میں دیت ہے۔"[3] سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں ایک شخص نے ایک آدمی کو اس قدر مارا پیٹا کہ اس کے سننے،دیکھنے اور جماع کرنے کی تینوں قوتیں،نیز عقل جاتی رہی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس کی چار دیتوں کی ادائیگی کا فیصلہ صادر فرمایا،حالانکہ وہ مضروب شخص زندہ رہا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے اس فیصلے کی مخالفت نہ کی۔ (8)۔کسی کے بولنے ،سمجھنے،چلنے،کھانے یا نکاح(جماع) کرنے اور بول وبراز کو کنٹرول کرنے کی قوت ختم کردی گئی تو اس میں ہر ایک کی مکمل دیت ہے کیونکہ ہر ایک کا بہت اہم اور بڑا فائدہ ہے،نیز بدن میں مذکورہ قوتوں میں سے ہر ایک قوت ایک ہی ہوتی ہےدو نہیں۔ (9)۔جسم میں بال اگنے کے چار مقامات میں سے اگر کسی ایک مقام کو اس قدر متاثر کیا گیا کہ اس میں بال اگنے کی استعداد نہ رہی تو اس میں بھی مکمل دیت ہے،یعنی سر کے بال،ڈاڑھی کے بال،ابرو کے بال اور پلکوں کے بال۔اگر ایک ابرو ہوتو اس میں نصف دیت ہے ۔ایک پلک میں چوتھائی حصہ دیت ہے کیونکہ پلکیں چار ہیں۔ ان احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ڈاڑھی کا کس قدر احترام اور قیمت ہے کہ اس کے تلف کرنے میں مکمل دیت مقرر کی ہے کیونکہ اس کا بہت فائدہ ہے اور اس میں مرد کےلیے حسن اوروقار ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بڑھانے اور اس کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔اسے مونڈنے،کاٹنے اور اس پر زیادتی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ستیاناس ہو ان لوگوں کا جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرکے اور کافروں اور منافقوں کی نقالی کرتے ہوئے ڈاڑھی سے برسر پیکار ہیں،وہ مردانہ شان کو چھوڑ کر زنانہ نزاکت اختیار کرتے ہیں۔شاعر نےسچ کہا ہے: يُقْضَى عَلَى المَرْءِ فِي أَيَّامِ مِحْنَتِهِ حَتَّى يَرَى حَسَناً مَا لَيْسَ بِالحَسَنِ
[1] ۔المغنی والشرح الکبیر 2/596۔ [2] ۔المغنی والشرح الکبیر 2/596۔ [3] ۔ المغنی والشرح الکبیر 9/600۔