کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 389
آدمی قتل ہو جائے۔ اگر ہر شخص کا انفرادی عمل جان لینے کا موجب نہ ہو لیکن وہ سب باہمی مشورے میں شریک تھے اور کچھ افراد نے قتل کیا تو سب سے قصاص لینا واجب ہوگا کیونکہ قتل میں ہر ایک دوسرے کا معاون تھا۔ اگر ایک شخص نے کسی کو مجبور کیا کہ فلاں کو قتل کر دو، چنانچہ اس نے مجبوری میں اسے قتل کر دیا تو مجبور کرنے والے اور جسے مجبور کیا گیا ہے دونوں کو قصاص میں قتل کیا جائے گا بشرطیکہ دونوں میں قصاص کی مذکورہ جملہ شرائط موجود ہوں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قاتل نے خود کو زندہ رکھنے کے لیے قتل کیا ہے ،باقی رہا مجبور کرنے والا تو وہ قتل کا سبب بنا ہے۔ جس نے بچے یا دیوانے شخص کو حکم دیا کہ فلاں شخص کو قتل کر دو اور اس نے قتل کر دیا تو اس صورت میں قصاص صرف اسی شخص سے لیا جائے گا جس نے قتل کا حکم دیا ہے کیونکہ اس میں قاتل حکم دینے والے کا آلہ بنا ہے۔ نیز بچہ اور دیوانہ شرعاً مکلف نہیں۔ اس لیے ان سے قصاص بھی نہیں لیا جائے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے ایسے عاقل و بالغ شخص کو قتل کرنے کا حکم دیا جسے یہ علم نہ تھا کہ مسلمان کو قتل کرنا حرام ہے، جیسے کوئی شخص غیر مسلم ملک میں پیدا ہواور اسے احکام شریعت سے واقفیت نہیں۔ اگر اس نے مقرر شخص کو قتل کر دیا تو قصاص صرف اسی سے لیا جائے گا جس نے حکم دیا کیونکہ وہی قتل کا سبب بنا ہے۔ باقی رہا قاتل تو وہ عدم علم کی وجہ سے معذور سمجھا جائے گا۔ اگر مامور شخص عاقل و بالغ ہو اور حرمت قتل سے واقف ہو تو اگر وہ کسی کو قتل کر دے گا تو اس سے قصاص لیا جائے گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: " لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيةِ الخَالِقِ " "خالق کی نا فرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں۔"[1] یاد رہے حکم دینے والا بادشاہ ہو یا مالک یا کوئی اور شخص حکم دینے والے کوو قت و حالات کے مطابق عبرتناک سزا دی جائے گی کیونکہ یہ شخص گناہ کے ارتکاب کا سبب ثابت ہوا ہے۔ اگر ایک شخص کو عمداً قتل کرنے میں دو آدمی شریک تھے لیکن ایک میں وجوب قصاص کی شرائط موجود نہیں دوسرے میں وہ شرائط پائی جاتی ہیں تو دوسرے شخص سے قصاص لیا جا ئے گاکیونکہ وہ قتل میں شریک ہے، پہلے سے نہیں کیونکہ اس میں قصاص نہ لیے جانے کا سبب موجود ہے۔ جس نے کسی کو پکڑ کر رکھا حتی کہ دوسرے نے اسے قتل کر دیا تو قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے گا پکڑنے والے کو جیل میں قید رکھا جائے گا حتی کہ وہ وہیں مر جائے ۔[2]
[1] ۔مسند احمد 1/131۔والمصنف لا بن ابی شیبۃ، السیر ،باب فی امام السریۃ یا مرھم بالمعصیۃ، من قال: لا طاعۃ لہ: 6/549حدیث 33706۔واللفظ لہ۔ [2] ۔مؤلف حفظہ اللہ نے جیل میں قید رکھنے کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔