کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 388
جائے تو اسے معروف طریقے سے اتباع (دیت کا مطالبہ) کرنا چاہیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہیے، تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے، اس کے بعد بھی جوسرکشی کرے اسے درد ناک عذاب ہوگا۔عقل مندو! قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے اس باعث تم(قتل ناحق سے) رکوگے۔"[1]میں عموم ہے۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس مسئلے میں اجماع ہے، جناب سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ"سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سات افراد کوایک آدمی کے قصاص میں اس لیے قتل کروا دیا تھا کہ وہ سب ایک آدمی کو دھوکے سےقتل کرنے میں شریک تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:"اگر صنعاء شہر کے سارے باشندے اس آدمی کے قتل میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کر دیتا ۔"[2] علاوہ ازیں دیگر صحابۂ کرام سے بھی ثابت ہے کہ ایک آدمی کے قتل میں انھوں نے ایک سے زیادہ افراد جو قتل میں شریک تھے سب کو قتل کیا ہے۔ اس مسئلے کی مخالفت کسی صحابی سے منقول نہیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پر اجماع تھا۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"ایک آدمی کے قتل میں شریک پوری جماعت کو قتل کرنے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اکثر فقہائے عظام کا اتفاق ہے اگرچہ یہ قصاص ظاہری ضابطہ (ایک شخص کے بدلے میں ایک شخص کو قتل کیا جائے)کے خلاف ہے لیکن اس میں حکمت اور مقصد یہ ہے کہ دوسروں سے قصاص نہ لینا نا جائز خونریزی میں تعاون کا ذریعہ نہ بن جائے۔"[3] علامہ ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"قتل کا بدلہ قتل معاشرے میں خونریزی کو روکنے کے لیے ہے جیسا کہ قرآن مجید نے اس پر تنبیہ کی ہے۔ اگر ایک فرد کے قتل میں شریک جماعت کو قتل نہ کیا جائے تو قتل و غارت کا خطرناک دروازہ کھل جائے گا کہ کسی بھی آدمی کو قتل کرنے کے لیے متعدد افراد اس لیے ایکا کر لیں گے کہ انھیں قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا ،نیز زجر و تو بیخ کا مقصد تبھی حاصل ہوگا اور مقتول کے ورثاء کی تسلی تبھی ہوگی جب قتل میں شریک تمام افراد سے قصاص لیا جائے گا۔"[4] ایک فرد کے قتل میں شریک جماعت کے تمام افراد کو تب قتل کیا جائے گا جب ہر ایک نے ایسا کام کیا ہو جس سے
[1] ۔البقرۃ:2/179۔178۔ [2] ۔صحیح البخاری، الدیات، باب اذا اصاب قوم من رجل، حدیث:6896۔ [3] ۔اعلام الموقعین :3/128۔ [4] ۔بدایۃ المجتہد :2/710۔